غریب طبقے کی مدد کے لیے حکومت اور فلاحی ادارے راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
گزشتہ روز دفتر جاتے ہوئے پہلی مرتبہ نوٹس کیا کہ فضا میں ایک مختلف قسم کی بھینی بھینی سی خوشبو تھی۔ یہ مہک غالباً گاڑیوں کے دھویں اور آلودگی کی وجہ سے کہیں دب جایا کرتی تھی۔
انسان دبک کر اندر بیٹھا ہے تو نیچر نے بھی کچھ سکھ کا سانس لیا ہے۔ انسان کو بھی چاہیے کہ دھرتی پر رحم کرے، جب حالات بحال ہوں تو اپنے حق سے اتنا ہی تجاوز کرے جتنا وہ خود سہہ سکے ورنہ قدرت نے دکھا دیا ہے کہ وہ اپنا توازن قائم کرنے کا بندوبست کرنا خوب جانتی ہے۔
خیر کورونا سے متعلق خبروں میں مختصر سا وقفہ چینی اور آٹے کی رپورٹ کی وجہ سے آیا۔ دو تین روز خوب شور و غوغا ہوا۔ نتیجتاً کابینہ میں رسمی سا ردو بدل بھی کیا گیا جس کی حیثیت محض نمائشی سی ہے۔ کہا تو گیا ہے کہ ٹھوس اقدامات کا اعلان فرانزک آڈٹ کے سامنے آنے کے بعد ہوگا لیکن پھر یہ نامکمل رپورٹ جاری کیوں کی گئی یہ معمہ حل نہ ہوسکا۔
بہرحال اب انتظار ہے پچیس تاریخ کا اور اس دوران ڈرائنگ رومز میں، ٹیلی وژن سکرینز پر اورعمومی زندگی میں بھی مختصر سے وقفے کے بعد، کورونا کی ریگولر نشریات بحال ہو گئیں۔
پانچواں ہفتہ شروع ہوا چاہتا ہے سیلف آئسولیشن کا اور اب عوام کے صبر کا حقیقی امتحان آن پہنچا ہے۔ ساتھ ساتھ انتظامیہ کی صلاحیت کا بھی۔ لوگ بحالت مجبوری اب گھروں سے نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں ادراک ہے کہ ریاست کی سرپرستی جزوی سی ہے اور اپنے حالات کا بوجھ بحر حال شہریوں کو خود ہی اٹھاناہے۔
کچھ لوگ تو اب اس بات کا تقاضا کرنے لگے ہیں کہ حکومتی نمائندوں سے یہ کیوں نہیں پوچھاجاتا کہ بیماری سے مرنا زیادہ تکلیف دہ ہوگا یا بھوک سے؟
اس سوال کا تسلی بخش جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے کیونکہ حکومت خود اس وقت پل صراط سے گذر رہی ہے جس کے ایک طرف کورونا کپھیلاؤ اور دوسری طرف بھوک ہے۔
ابھی تک ریاست کہیں پیار پچکار سے اور کہیں تھوڑی سی سرزنش سے لوگوں کو احتیاط کرنے کی طرف راغب کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں کچھ ممالک میں بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں تک متعین کی جارہی ہیں۔ یورپ میں باہر نکلنے کے جرمانے سینکڑوں یورو تک جا پہنچے ہیں لیکن ہم ابھی تک منتوں، ترلوں اور مرغا بنانے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں کورونا نے زیادہ تباہی مچائی ہے وہاں سخت ترین لاک ڈاؤن کے تحت زندگی وقتی طور پر نیا نارمل بن چکی ہے۔ نیو یارک کے گورنر نے لاک ڈاؤن میں توسیع کرتے وقت صاف اعلان کیا ہےکہ ان کی حکومت کی ترجیح ہے کہ وبا کو ہر قیمت پر روکا جائے، معیشت کی باری بعد میں آئے گی۔
پاکستان میں بھی تمام صوبائی حکومتوں کا اس پر اتفاق ہے اور جس کا وہ برملا اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ لاک ڈاؤن کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن جو ادارے اس صورتحال سے گراؤنڈ پر نمٹ رہےہیں ان کو بیماری کا مزید جغرافیائی پھیلاؤ صاف نظر آ رہا ہے۔
ایک طرف لاہور اور کراچی میں مزیدآبادیاں اب قرنطینہ ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف عوام اب ابتدائی احتیاط کے بعد بے احتیاطی کی طرف راغب ہیں۔ ٹیسٹنگ کچھ حد تک بڑھنے کی امید ہے مگر ابھی تک اعتماد سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کیاوہ متاثرہ آبادی کے زیادہ حصے کو کور کر سکے گی۔
عوام کی ترجیح اب حفاظتی سے زیادہ معاشی ہو چکی ہے۔ تاجروں کے صبر کا پیمانہ خصوصاً لبریز ہوچکا ہے۔ وہ کاروبار کھولنے کے لیے بےتاب ہیں اور اس بات پر تیار ہیں کہ حکومت کے ساتھ مل کرلائحہ عمل طے کر لیں تاکہ بزنس ٹھپ نہ ہو۔
ضروری اور اضافی کاروبار میں تخصیص بھی ایک چیلنج ہو گا۔ امکان یہ ہے کہ ایک دفعہ دوکانیں کھلنا شروع ہوئیں تو ان کو مخصوص اشیاء تک محدود کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسے وقت میں جب بیماری کا پھیلاؤ آہستہ مگر مسلسل ہے ، مکلمل کاروبارکھولنا بھی خطرے سے کم نہیں۔
فی الحال سب کو ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے کہ کچھ مہینوں تک حالات ایسے ہی رہنے ہیں۔ اس لیے لاک ڈاؤن کے ساتھ محدود معاشی سرگرمیاں اب پاکستان میں بھی ایک نیا نارمل ہے۔ نہ صرف اس وقت تک جب تک اس وبا کا خطرہ ٹل نہیں جاتا بلکہ اس کے بعد بھی ایک معاشی ایمرجنسی جاری رہےگی۔
ابھی ہی اسد عمر صاحب نے آگاہ کیا ہے کہ ٹیکس وصولی میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے۔ دوسری طرف بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے رقم بھی کم ہو گئی ہے اور برامدات بھی۔ معیشت کا پہیہ رکنے کے اثرات بھی دور رس ہیں خصوصاً صنعت اور خدمات کے سیکٹر تو بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
حکومت کو تو اس ساری صورتحال میں ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھنا ہی ہو گا مگر شہریوں کی ذمہ داری بھی کم نہیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب ضرورت اور تعیشات کا فرق کریں اور ایک ذمہ دار قوم بن کےابھرنے کی کو شش کریں۔ تمام ذمہ داری حکومت پہ ڈال کہ بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ ہماری کیا کوئی بھی حکومت صرف سختی سے ان حالات سے نہیں نمٹ سکتی۔ اس بحران کے اثرات کچھ ہفتوں نہیں بلکہ کچھ مہینوں سے بھی آگے جاتے نظر آ رہے ہیں۔ معاشی پرواز شدید ناہموار ہوگی اور یہ وقت ہے کہ حکومت اور عوام دونوں کمر کس لیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں