وائٹ ہاؤس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور صدر رام ناتھ کوند کو ان فالو کردیا۔
خیال رہے کہ حال ہی میں وائٹ ہاؤس نے وزیراعظم مودی، پی ایم او، صدر رام ناتھ کووند اور امریکہ میں انڈین سفارت خانے کے ٹوئٹر ہینڈل کو فالو کرنا شروع کیا تھا لیکن ایک رپورٹ کے مطابق اب وہ صرف امریکہ میں انڈین سفارت خانے کو ہی فالو کر رہا ہے۔
اب وائٹ ہاؤس صرف 13 اکاؤنٹس کو فالو کر رہا ہے جس میں ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ سے متعلق اکاؤنٹس ہیں۔
سماجی کارکن اویس سلطان خان نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے ان فالو کیے جانے کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا صرف روز افزوں تعصب اور اقلیتوں کے خلاف تشدد بھڑکانے کی وجہ دنیا میں اپنی ساکھ گنوا رہا ہے۔ یہ ایک نیا دھچکہ ہے۔‘
India is loosing its reputation in the world only because of the increasing bigotry and incitement of violence against minorities.
This is a new blow.https://t.co/jKm87taMeS
— Ovais Sultan Khan | اُویس | उवेस (@OvaisSultanKhan) April 29, 2020
گذشتہ دنوں مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکہ کے مذہبی آزادی پر کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے انڈیا کو ’خصوصی تشویش والے ملک‘ کی فہرست میں شامل کیا ہے جسے انڈیا نے سختی کے ساتھ مسترد کر دیا۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انڈیا کو پاکستان، چین اور شمالی کوریا کے ساتھ رکھا ہے اور کہا کہ 'ان ممالک میں مذہبی آزادی کی صورت حال تشویشناک ہے۔'
اپنے کلیدی نکات میں یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ 'سنہ 2019 میں وزیر اعظم مودی کی زبردست کامیابی کے بعد قومی حکومت نے ایسے قوانین بنائے جس میں ملک بھر میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور بطور خاص یہ قوانین مسلمانوں کے خلاف ہیں۔'
اس رپورٹ میں شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی یعنی نیشنل ریجسٹر آف سٹیزن کا ذکر ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے انڈیا میں رہنے والے لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ لاحق ہوگا اور انہیں حراستی کیمپس میں رہنا ہوگا۔
اس میں خصوصی طور پر انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے تارکین وطن کو 'دیمک' سے تعبیر کیا اور کہا تھا کہ ’انہیں ختم کیا جانا ہے۔‘
The Citizenship (Amendment) Act in #India “potentially exposes millions of Muslims to detention, deportation, and statelessness when the government completes its planned nationwide National Register of Citizens” USCIRF Vice Chair @nadinemaenza #USCIRFAnnualReport2020
— USCIRF (@USCIRF) April 28, 2020
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم انڈیا کے بارے میں یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں ظاہر کیے جانے والے آبزرویشن کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ جانب دار ہے اور عادتاً انڈیا کے خلاف یہ بیانات نئے نہیں ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل انڈیا کو اس درجے میں 2004 میں ڈالا گیا تھا اور اس کی وجہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات اور اس پر حکومت کی خاموشی تھی۔
اگرچہ انڈین حکومت نے امریکی رپورٹ کو جانبدار اور خراب نمائندگی کی نئی سطح کہہ کر مسترد کر دیا ہے لیکن انڈیا کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'یو ایس سی آئی ایف آر نے اپنی 2020 کی رپورٹ میں انڈیا کی رینکنگ انتہائی نیچے درجے تک گرا دی ہے۔ اس نے انڈیا کو چین، شمالی کوریا، سعودی عرب اور پاکستان کے ساتھ رکھا ہے۔ ہم اپنے اسلاموفوبیا کی وجہ سے خبریں بنا رہے ہیں۔'
The U.S. Commission on International Religious Freedom (USCIRF) has downgraded India to the lowest ranking, in its 2020 report. It placed India alongside countries, including China,North Korea,Saudi Arabia&Pakistan. We are making news with our Islamophobia https://t.co/uxpMe0xTmQ
— Prashant Bhushan (@pbhushan1) April 29, 2020
انڈیا کی تاریخ میں خصوصی دلچسپی رکھنے والی امریکی مورخ آڈری ٹرشکی نے ٹویٹ کی کہ ’گذشتہ روز یو ایس سی آئی آر ایف نے انڈیا کو مذہبی آزادی کی بدترین خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ دہلی پولیس اس قدم کی درست ثابت کرنے کے لیے اوور ٹائم کام کر رہی ہے۔‘
The USCIRF announced yesterday that it has placed India on a short list of the world's worst offenders of religious freedom.
The Delhi police are working overtime to prove that such a move was justified.https://t.co/zq25bFyNVm #CAA_NRC_Protests #India #Islamophobia_In_India
— Audrey Truschke (@AudreyTruschke) April 29, 2020