پنجاب کے ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے مبشر سلطان چار سال قبل ایک ایجنٹ کو پیسے دے کر یونان پہنچے تھے۔ ابتدا میں دوستوں کے تعاون سے کام مل گیا اور سلسلہ چل نکلا لیکن پھر وہاں کے معاشی حالات میں خرابی کے باعث گزارا کرنا مشکل ہونے لگا۔
چند ماہ قبل انھیں ایک اچھی جگہ پر کام مل گیا تو ان کے دن بدلنا شروع ہوئے۔ گھر والے بھی خوش تھے کہ اب تواتر سے پیسے آیا کریں گے۔ لیکن کورونا وائرس نے ان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔
یورپ میں لاک ڈاؤن کے باعث مبشر کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے اور اب وہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد نئے کام کے منتظر ہیں جو تلاش کرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔
مزید پڑھیں
-
سویڈن میں لاپتہ ہونے والے پاکستانی صحافی کی لاش برآمدNode ID: 475966
-
سعودیہ سے پاکستانیوں کی میتیں بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟Node ID: 476056
-
پاکستانیوں کی واپسی، 'مزید 30 پروازیں چلانے کا فیصلہ'Node ID: 476156
یورپی ممالک میں کم وبیش 25 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ ان میں تقریباً آدھے برطانیہ جبکہ باقی فرانس، سپین، اٹلی، جرمنی، پرتگال، بیلجیئم، ڈنمارک اور دیگر ممالک میں رہتے ہیں۔
ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان پاکستانیوں کی بھی ہے جو وہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور قانونی رہائش اختیار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ غیر قانونی پاکستانی یونان میں ہی مقیم ہیں بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ یونان پہنچنے والے پاکستانی یورپ کے دیگر ممالک کا رخ کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
یورپ میں مقیم زیادہ تر پاکستانی فیکٹریوں، ریستورانوں، کھیتی باڑی، باغات یا دیگر شعبوں میں کام کرتے ہیں۔
زیادہ تر شعبوں میں مقررہ تنخواہ کے بجائے دیہاڑی ملتی ہے اور پکی ملازمت بھی نہیں ہوتی۔ کچھ پاکستانی اپنے چھوٹے موٹے کاروبار بھی کرتے ہیں جن میں ٹیک اویز اور ڈیلیوریز شامل ہیں۔ ایک بڑی تعداد ٹیکسی سروس سے بھی منسلک ہے۔
کورونا وائرس کے باعث جہاں کئی یورپی ممالک کی حکومتوں کے اقدامات کے باعث ان کے شہریوں کو اس طرح کے مالی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس سے ترقی پذیر ممالک کے عوام متاثر ہوئے ہیں تاہم یورپ کے کئی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یونان میں مقیم مبشر سلطان نے بتایا کہ 'جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو کچھ پیسے میرے پاس تھے جبکہ ڈیرے پر ساتھ رہنے والے دوستوں کے پاس بھی پیسے تھے۔ خیال تھا کہ چند دن کی بات ہے اس لیے معمول کے مطابق ہی خرچہ کرتے رہے۔ 20، 25 دن بعد ہم چاروں کی جیبیں خالی ہوگئیں۔ گذشتہ 15 دن سے ہم اپنے دوستوں سے ادھار مانگ کر گزارا کر رہے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ '42 دن بعد لاک ڈاؤن میں کچھ نرمی ہوئی ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں حالات بہتر ہونے پر کام بھی مل جائے گا۔ اب تو جن سے پیسے ادھار لیے تھے وہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا ہاتھ بھی تنگ ہو چکا ہے۔ غیر قانونی ہونے کی وجہ سے حکومتی امداد بھی نہیں مل سکتی۔'
یاسر اقبال سپین میں موبائل اور کمپیوٹر ریپئرنگ کا کام کرتے ہیں اور ان کی اپنی دکان ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکان ایک مہینے سے بھی زیادہ عرصہ بند رہی۔ اس وجہ سے ان کو وہاں پر مالی مشکلات تو ہوئیں لیکن سرکاری امداد کے باعث سلسلہ چلتا رہا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'اس ایک مہینے میں تمام بچت خرچ ہوگئی ہے۔ پاکستان میں کوٹھی پر کام جاری تھا۔ جو پیسے وہاں بھیجنے تھے وہ لگ گئے ہیں۔ اب مجبوراً وہاں کام روکنا پڑ گیا ہے۔ گاؤں میں مکان کا کام شروع کر کے روکنا بے عزتی والی بات ہوتی ہے۔ اب مجھے ڈبل محنت کرنا پڑے گی۔‘
اٹلی میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد فیکٹریوں یا پھر زرعی شعبے میں کام کرتی ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں فیکٹری انتظامیہ جب اپنے ملازمین کو گھروں میں بیٹھنے کا کہتی ہے تو مقامی قوانین کے تحت تنخواہ کا 80 فیصد حکومت جبکہ 20 فیصد فیکٹری ادا کرتی ہے۔
