Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودیہ سے پاکستانیوں کی میتیں بھیجنے کا طریقہ کیا ہے؟

ویلفیئر قونصلر کے مطابق کارکن کی موت کی صورت میں باڈی اس کے ملک واپس بھجوانا کفیل کی ذمہ داری ہے. فائل فوٹو اے ایف پی
بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی ساری زندگی دیار غیر میں رہ کر کمائی کرتے اور اپنے خاندان کی خوشحالی کے لیے تگ و دو کرتے ہیں۔
ایسے میں ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی وجہ سے ان کی موت بھی دیار غیر میں ہی واقع ہو جائے تو ان کی تدفین اپنی مٹی میں کی جائے۔
کورونا وائرس کے باعث جہاں بہت سے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا وہاں سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔

 

لاک ڈاؤن کے دوران سعودی عرب میں 74 پاکستانی مختلف بیماریوں و حادثات کے باعث ہلاک ہوئے اور فضائی آپریشن معطل ہونے کے باعث میتیں پاکستان لانے میں تاخیر ہوئی۔
کورونا وائرس کی صورت حال کے پیش نظر وزارت سمندر پار پاکستانیز نے سعودی عرب میں پاکستانیوں سے رابطے کے لیے ورچوئل اجلاس منعقد کیا جس میں اس معاملے پر بھی بات ہوئی۔
جمعے کو جدہ سے 10 میتیں پاکستان روانہ کی گئیں۔ پانچ میتیں جدہ سے دوسری پرواز کے ذریعے بھیجی جائیں گی.
اسی طرح ریاض سے جمعے کو اسلام آباد جانے والی پرواز سے بھی دس میتیں بھیجی گئی ہیں۔

فلائٹ آپریشن کی معطلی کے دوران سعودی عرب میں 74 پاکستانی وفات پا گئے (فوٹو: عرب نیوز)

موجودہ صورت حال میں میتوں کی پاکستان منتقلی کے طریقہ کار کے حوالے سے کمیونٹی میں کچھ غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا۔ اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ میت پاکستان منتقلی کا طریقہ کار کیا ہے۔

میت پاکستان بھجوانے کا طریقہ کار

اردو نیوز نے سعودی عرب سے میت پاکستان منتقلی کا طریقہ کار جاننے کے لیے وہاں پر موجود پاکستانی ڈاکٹر اذکار بیگ سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ 'طریقہ کار اور سعودی قانون کے مطابق کسی بھی پاکستانی کے فوت ہونے کی صورت میں سب سے پہلے مقامی پولیس سٹیشن کو اطلاع دی جاتی ہے۔
اس کے بعد ہسپتال سے ڈیتھ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ لیا جاتا ہے۔ پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے سے پاکستان میت منتقلی کا این او سی لیا جاتا ہے۔ یہ مراحل مکمل کرنے کے بعد سعودی وزارت برائے سول امور سے رابطہ کرکے وہاں تمام کاغذات جمع کروائے جاتے ہیں جو نیا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔'
ان کے مطابق 'متوفی کے ادارے کے واجبات کی کلئیرنس کی رسید بھی لازمی حاصل کرنا ہوتی ہے جب کہ متعلقہ پولیس سٹیشن سے ایئرپورٹ پر پاسپورٹ، کسٹم اور کارگو حکام کے نام خطوط بھی حاصل کرنا ہوتے ہیں۔ یہ تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد میت کی روانگی کے لیے ایئرلائن کے ساتھ بکنگ کرائی جاتی ہے۔‘
اس طرح اگر میت پاکستان لانے کے لیے خونی رشتہ دار سعودی عرب میں موجود نہ ہو تو پاکستان سے نوٹری پبلک اور دفتر خارجہ سے تصدیق شدہ اتھارٹی لیٹر بھیجا جاتا ہے جس میں لواحقین کسی فرد کو میت سپرد کرنے کا کہتے ہیں۔

 میت لے جانے کے لیے جو اخراجات آتے ہیں وہ کفیل، کمپنی یا لواحقین کو ادا کرنا پڑتے ہیں (فوٹو: سوشل میڈیا)

 اردو نیوز نے اس حوالے سے جدہ میں پاکستانی قونصل خانہ کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن سے رابطہ کیا۔ انھوں نے میت کی پاکستان منتقلی پر اٹھنے والے اخراجات اور دیگر امور کے بارے میں آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میت لے جانے پر جو اخراجات آتے ہیں وہ کفیل، کمپنی یا لواحقین کو ادا کرنا پڑتے ہیں .ان میں میت کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ایک انجکشن ہے جس کی قیمت اس وقت پانچ ہزار ریال ہے جو سعودی وزارت صحت وصول کرتی ہے.
کارگو ہینڈلنگ، ڈاکومنٹیشن، ایمبولنس، ہسپتال ، ایئرپورٹ چارجز اور دیگر کی مد میں لگ بھگ ڈھائی ہزار ریال خرچ ہوتے ہیں اور یہ تمام کام پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔
ایک سوال پر ویلفیئر قونصلر نے کہا کہ کسی کارکن کی موت کی صورت میں ڈیڈ باڈی اس کے ملک واپس بھجوانا کفیل کی ذمہ داری ہے. عموما یہ اخراجات کمپنی یا کفیل اداکرتا ہے تاہم جو تارکین غیر قانونی طور پر مقیم رہے یا اپنے کفیل سے ہٹ کر کہیں اور کام کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں کفیل اخراجات ادا کرنے سے انکار کرتا ہے تو لواحقین یہ رقم ادا کرتے ہیں۔
سفارت خانے کا ویلفیئر سیکشن یا کمیونٹی کی تنظیمں میت کی پاکستان منتقلی میں مدد کرتی ہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کارکن کا سعودی عرب میں کوئی والی وارث موجود نہ ہو قونصلیٹ کا ویلفیئرسیکشن میت پاکستان بھیجنے کا اتنظام کرتا ہے.

کسی کارکن کا سعودی عرب میں کوئی والی وارث موجود نہ ہو قونصلیٹ میت پاکستان بھیجنے کا اتنظام کرتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

اس سوال پر کہ میت کی پاکستان روانگی میں کتنا وقت درکار ہوتا ہے. ماجد میمن کا کہنا تھا کہ اس کا دار ومدار حالات پر ہے. اگر کسی کارکن کی موت کی وجہ طبی ہو تو پانچ دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں سعودی قانون کےمطابق تمام کارروائی مکمل کرکے میت روانہ کردی جاتی ہے. اگر موت کسی اور وجہ سے ہوئی ہو تو اس میں تاخیر ہوتی ہے. سعودی قانون کے مطابق کارروائی مکمل ہونے کے بعد ہی میت حوالے کی جاتی ہے.
انہوں نے مزید کہا کہ اگر میت کے ساتھ کوئی جانے والا نہ ہو تو مرنے والے کے ورثا سفارت خانے یا قونصلیٹ کے ویلفییر سکیشن کو اٹارنی بھیج دیں.
اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کےذریعے میت پاکستان میں ایئر پورٹ سے وصول کرکے گھر تک پہنچائی جائےگی جب کہ سعودی عرب میں یہ کام ویلفیئر سیکشن انجام دے گا۔
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں موجود رشتے دار او پی ایف کے ذریعے سفارتخانے یا قونصلیٹ کو درخواست اور اٹارنی بھیجیں۔
ایک اور سوال پرانہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ میت پاکستان لے جانے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اگر تدفین سعودی عرب میں کی جائے تو این او سی کے اجرا اور تمام کارروائی کے لیے ایک دن درکار ہوتا ہے۔
کیا پی آئی اے میت پاکستان لانے کے پیسے لیتی ہے؟
پی آئی اے کے فضائی آپریشن کی بندش کے دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ پی آئی اے نے میت کی منتقلی کے اخراجات وصول کرنا شروع کر دیے ہیں۔
 اس حوالے سے پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک نے ایک پریس کانفرنس میں واضح اعلان کیا ہے کہ دنیا بھر میں جتنے بھی پاکستانی وفات پا گئے ہیں اور ان کے لواحقین میتیں پاکستان لانا چاہتے ہیں۔ پی آئی اے بلا معاوضہ میتیں پاکستان پہنچائے گی۔

پی آئی اے بیرون ملک سے پاکستانیوں کی میتیں بلا معاوضہ پاکستان لاتی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اردو نیوز نے پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ 'پی آئی اے دنیا بھر میں جہاں جہاں سے آپریٹ کرتی ہے وہاں سے کسی بھی پاکستانی کی وفات کی صورت میں میت منتقل کرنے کے پیسے وصول نہ کرنے کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس پالیسی میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی کبھی تعطل آیا ہے۔ ‘
جدہ قونصل خانے کے ویلفیئر قونصلر ماجد میمن کے مطابق  میت کی پاکستان منتقلی تک کل خرچ  لگ بھگ ساڑھے سات ہزار ریال کا ہے جو پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ روپے سے زائد ہیں۔ میت پی آئی اے کے بجائے غیر ملکی ائیرلائنز سے بھیجنے کی صورت میں یہ بل بڑھ کر دس ہزار ریال تک پہنچ جاتا ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں