پاکستان کی پارلیمان میں صدر، وزیراعظم، سپیکر و ڈپٹی سپیکر کے انتخابات، مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب، کسی غیر ملکی سربراہ مملکت کا خطاب یا پھر بجٹ پیش ہونا ہو تو ہی خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف اضافی نفری تعینات کی جاتی ہے بلکہ خصوصی پاسز بھی جاری ہوتے ہیں۔ مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور ریڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے۔
کورونا وائرس اور اس حوالے سے قومی حکمت عملی کو زیر بحث لانے کے لیے سوموار کو ہونے والا قومی اسمبلی اجلاس اگرچہ معمول کا اجلاس ہی تھا لیکن اس کے سکیورٹی انتظامات ماضی میں ہونے والے کسی بھی خصوصی اجلاس سے کہیں مختلف اور مؤثر تھے۔
مزید پڑھیں
-
کورونا متاثرین سے متعلق جعلی کالزNode ID: 477831
-
24 گھنٹوں میں تقریباً 15 سو نئے کیسزNode ID: 478131
-
کون کاروبار کھولے، کون بند رکھے؟ حکومتی احکامات میں ابہامNode ID: 478166
فرق صرف اتنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے اہم ترین اور مشترکہ اجلاسوں کے وقت سکیورٹی کا دائرہ کار وسیع ہوتا تھا لیکن اس دفعہ سکیورٹی عملہ محدود لیکن چوکس رکھا گیا تھا۔
کتنا ہی اہم اجلاس کیوں نہ ہو، پارلیمان کے داخلی دروازوں پر ڈیوٹی دینے والے شناسا چہروں کو پاس چیک کیے بغیر جانے کی اجازت دے ہی دیتے ہیں۔
تاہم کورونا کی وبا کے دوران ہونے والے قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کئی سکیورٹی اہلکاروں نے تو خصوصی پاس نہ ہونے کی وجہ سے ذاتی دوستوں کو بھی واپس بھیج دیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان سکیورٹی اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے قبل ایسے ہی مرحلے سے گزارا گیا۔ ان کی تھرمل سکریننگ کی گئی، کورونا ٹیسٹ کیے گئے اور پھر انھیں مقررہ جگہ پر ڈیوٹی کے لیے بھیجا گیا۔
پارلیمنٹ ہاؤس آنے والے افراد بشمول ارکان پارلیمنٹ کو خصوصی طور پر تیار کیے گئے جراثیم کش سپرے کرنے والے دروازوں سے گزارا گیا۔ پارلیمنٹ میں ڈیجیٹل سکرین نصب کی گئی تھیں، جو بھی اس کے سامنے آتا، اس کا درجہ حرارت سکرین پر دکھائی اور سنائی بھی دیتا۔
توقع کے برعکس ارکان پارلیمان کی حاضری بھی مناسب تھی بلکہ ن لیگی رکن عبدالرحمان کانجو کے بقول 'ماضی اور آج کے اجلاس میں فرق صرف اتنا تھا کہ آج حاضری زیادہ تھی۔'
دو ماہ بعد ملنے والے اراکین اسمبلی ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش تھے اور خوش گپیاں بھی لگا رہے تھے لیکن ان سب کے چہروں پر کورونا کا خوف نمایاں تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایوان سے باہر کوئی بھی رکن نہ تو کسی سے بات کر رہا تھا اور نہ ہی رکنا مناسب سمجھ رہا تھا۔

اگرچہ ہدایت تھی کہ ارکان کم از کم ایک سیٹ چھوڑ کر بیٹھیں، ماسک لگائیں، دستانے پہنیں اور ہینڈ سینیٹائزر کا استعمال کرتے رہیں لیکن ایوان میں اکثر اس کی خلاف ورزی ہوتی دکھائی دی۔
ڈپٹی سپیکر بار بار اپنے مخصوص اندازمیں کہتے رہے کہ 'فاصلے فاصلے سے بیٹھیں اور کچہری مت لگائیں' لیکن ان کی کم ہی لوگ سن رہے تھے۔
دو ماہ بعد ہونے والا اجلاس جس کے لیے سب سے زیادہ دباؤ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ڈالا گیا تھا۔ اس کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اجلاس شروع ہوتے ہی شہباز شریف کو ان کے ڈاکٹر کی طرف سے ملنے والی ہدایت کے بارے میں بتایا اور کہا کہ پارٹی نے ان کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا ہے۔
دوسری جانب اجلاس کورونا وائرس اور انسانی صحت جیسے اہم مسئلے پر بلایا گیا تھا تو وزیر اعظم عمران خان جو کہ وزیر صحت بھی ہیں وہ بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
ایوان کے باہر کا ماحول معمول کے اجلاسوں سے یکسر مختلف دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ایوان میں ہونے والی کارروائی بھی مختلف ہوگی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔
اجلاس کے آغاز پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے بارے آگاہ کیا۔

انھوں لاک ڈاون میں نرمی کے حوالے سے بھی دلائل دیے۔ 18ویں ترمیم اور صوبائی حکومتوں بالخصوص سندھ کے حوالے سے بھی بات کی۔ تاہم جاتے جاتے انھوں نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی کارکردگی کی تعریف بھی کی۔
شہباز شریف کی جگہ خواجہ آصف نے بحث کا آغاز کیا تو ابتدا میں ان کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے نوٹس گم ہو گئے اور وہ کئی منٹ تک کاغذ کھنگالتے رہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ 'جب سو مریض تھے تو لاک ڈاؤن سخت تھا اور جب 600 سے زائد ہلاکتیں اور 30 ہزار مریض ہیں تو لاک ڈاؤن ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ ساری پالیسی اور حکمت عملی ہے جس کو صرف ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور لفظ 'کنفیوژن' ہے۔
خواجہ آصف جب اپنی تقریر کے دوران کہہ کر رہے تھے کہ جب قومی اتفاق رائے کی ضرورت تھی اس وقت بھی اپوزیشن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیاں جاری ہیں تو ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ 'کورونا پر رہیں۔'
خواجہ آصف کے ساتھ بیٹھے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے آواز لگائی کہ 'یہ کورونا ہی ہے۔ پوری پارلیمنٹ کو کورونا لگ گیا ہے۔'
بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ 'کورونا کے بحران نے ٹرمپ، بورس جانسن اور عمران خان جیسے حکمرانوں کو بے نقاب کیا ہے۔ وزیراعظم کو آج ایوان میں ہونا چاہیے تھا۔ وزیر خارجہ نے ان کی نمائندگی کی لیکن انھوں نے کورونا کے بجائے سندھ اور اٹھارویں ترمیم کو نشانہ بنایا۔'
