عید کے تہوار پر ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنوں میں جا کر خاندان کے ساتھ خوشی منائے۔ رواں برس کورونا کے باعث جہاں بہت سے دیگر معمولات زندگی متاثر ہوئے وہیں ہزاروں لوگوں کی اپنوں میں عید منانے کی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی۔ خاص طور پر وہ افراد جو روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں دیگر ممالک میں مقیم تھے وہ تو جہاں تھے وہیں پر عید منانے پر مجبور ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں مقیم بہت سے غیر ملکی بھی اپنے ممالک کو روانہ نہیں ہو سکے۔ اسلام آباد میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کئی ممالک کے طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
کورونا وائرس اور فضائی آپریشن کی معطلی کے باعث وہ دو ماہ سے یونیورسٹی ہاسٹل میں ہی مقیم ہیں۔ لاک ڈاؤن اور فضائی آپریشن کی معطلی کی وجہ سے وہ عید کے موقع پر بھی اپنے آبائی ممالک کو نہیں جا سکے۔
مزید پڑھیں
-
’اس عید پر گلے نہ ملیں، نماز گھر پر ادا کریں‘Node ID: 480541
-
عید پر گلے ملنے کی روایت کب اور کیسے شروع ہوئی؟Node ID: 480721
-
گھروں میں نماز عید کیسے ادا کریںNode ID: 480851
مرد طلبہ کے علاوہ خواتین ہاسٹل میں دو سو زائد طالبات قیام پذیر ہیں۔ ایسے میں ان میں طالبات کو گھروں سے دور عید کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ وہ عید کی خریداری کے لیے بازار بھی نہیں جا سکتی تھیں۔
اسلامی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہاسٹل میں مقیم طالبات کو عید روایتی انداز میں منانے کا موقعہ فراہم کرتے ہوئے چاند رات اور عید کے پہلے دن خصوصی انتظامات کیے۔ 40 ممالک کی دو سو سے زائد طالبات کو گھر سے دور گھر جیسی عید منانے کا موقعہ فراہم کرنے کے لیے چاند رات کو چوڑیوں، مہندی اور مصنوعی جیولری کے سٹال لگائے گئے جہاں سے طالبات نے اپنی پسند کے مطابق عید شاپنگ کی۔ آخری روزے کی افطاری کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔
اس موقع پر طالبات نے اپنی پسند کی اشیا خریدیں، خوشی کا اظہار کیا اور روایتی انداز میں ایک دوسری کے ہاتھوں پر مہندی بھی لگائی۔
![](/sites/default/files/pictures/May/37246/2020/pic_10.png)
خواتین ہاسٹل کی پرووسٹ ڈاکٹر آمنہ محمود بھی طالبات کے ساتھ موجود رہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہاسٹل میں مجموعی طور ساڑھے تین ہزار طالبات رہائش پذیر ہوتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مقامی طالبات گھروں کو چلی گئیں تاہم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سمیت چالیس ممالک کی 200 سے زیادہ طالبات کو یہاں رکنا پڑا۔'
انھوں نے کہا کہ 'پہلے رمضان اور اب عید کے موقع پر بھی اپنے ممالک کو نہ جا سکنے کی وجہ سے یہ طالبات تنہائی کا شکار ہو رہی تھیں اور پریشان بھی تھیں۔
'ہم نے ان کی ذہنی حالت کو بھانپتے ہوئے رمضان میں سحری اور افطاری کا انتظام تو کیا ہی تھا چاند رات کو عید شاپنگ کا بھی انتظام کیا۔ رات گئے تک ان طالبات نے پاکستانی ثقافت کے مطابق چوڑیاں مہندی اور دیگر چیزیں خریدیں اور اچھی طرح چاند رات منائی۔ کوشش کی ہے کہ ان کو اپنے خاندان جیسا ماحول دے سکیں۔'
![](/sites/default/files/pictures/May/37246/2020/pic_11.png)
ڈاکٹر آمنہ نے بتایا کہ 'عید کے دن بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے اور طالبات کو عید کے پکوان فراہم کیے گئے ہیں جبکہ طالبات نے خود بھی عید کی مناسبت سے خوب تیاری کر رکھی ہے۔'
اس موقع پر طالبات نے اپنے اپنے ممالک کی ثقافت پر مبنی لباس لباس پہن رکھے تھے۔ انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹیں اور باہمی بھائی چارے اور رواداری کا پیغام دیا۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والی طالبہ رویا سید نے بتایا کہ وہ عید پر عموماً افغانستان جاتی ہیں اور اپنے خاندان کے ساتھ ہی عید مناتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث اب کی بار ایسا نہیں ہو سکا لیکن جس طرح سے ہمارا خیال رکھا گیا ہے بالکل بھی کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوئی۔ پاکستان میں عید منا کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔'
![](/sites/default/files/pictures/May/37246/2020/iu-2.jpg)