ان کا مزید کہنا تھا کہ 'عرب خطہ مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور ایسے وقت میں ہمیں اچھی خبروں کی ضرورت ہے۔'
'ہوپ مارس مشن' 14جولائی سے اپنا سفر شروع کر دے گا اور توقع ہے کہ فروری تک یہ سیارے تک پہنچ جائے گا۔
اس پروجیکٹ کی نگرانی ایک اماراتی ٹیم نے کی ہے۔
اس منصوبے پر کام 2014 میں شروع کیا گیا تھا۔ ٹیم نے خلائی جہاز کا ڈیزائن تیار کیا اور خود ہی اسے بنایا۔
ٹیم نے اس کو بار بار ٹیسٹ کیا اور اس کو سخت سے سخت حالات سے گزارا۔
متحدہ عرب امارات کی ایڈوانس سائنسز کی وزیر سارا الامیری نے بتایا کہ امارات کے لیے یہ منصوبہ کیوں اہم تھا۔
سارا الامیری کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی معیشت کی بنیاد خدمات، لوجسٹکس تیل اور گیس پر ہے اور خطے میں اس کو ایک متنوع معیشت سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'مریخ پر مشن بھیجنے نے ہمیں موقع دیا کہ ہم نہ صرف انجینئرنگ کی صلاحیت کو اجاگر کریں بلکہ اس نے سائنسدانوں کے لیے متحدہ عرب امارات میں نئے مواقعے بھی پیدا کیے۔'
الامیری کا کہنا تھا کہ مشن کی جانب سے ملنے والا ڈیٹا عوام کے لیے تب دستیاب ہو گا جب یہ سپیس کرافٹ اگلے سال اگست اور ستمبر میں مریخ کے گرد چکر لگانا شروع کر دے گا۔
متحدہ عرب امارات کے پاس اپنا لانچ پیڈ تو نہیں، اپریل میں سپیس کرافٹ کو جاپان بھیجا گیا تھا، کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑھتی ہوئی سفری پابندیوں کی وجہ سے اسے شیڈول سے تین ہفتے پہلے بھیجا گیا۔
عمران شرف کے مطابق اس مشن سے متعلق کچھ بھی آسان نہیں تھا، اس کے پہلے دن ہی متعدد چیلنج درپیش تھے اور مزید مشکلات تب پیش آئیں جب کورونا وائرس کی وبا شروع ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ مستقبل کے لیے منصوبے بنائے ہیں اور یقینی طور پر ہم صرف مریخ تک رکیں گے نہیں۔
لندن سے ویبینار کے ذریعے اماراتی سوسائٹی کے چیئرمین الیستر برٹ نے کہا کہ پچھلے 60 برسوں میں صرف چھ ممالک نے اپنے مشنز مریخ پر بھیجے ہیں۔
متحدہ عرب نے پہلے ہی دو سیٹلائٹس اور ایک خلا باز بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر بھیجے ہوئے ہیں۔