امریکہ میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ’سامراجیت، نسل پرستی اور غلامی‘ کی حمایت کرنے والوں کے مجسموں کو تباہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب مظاہرین نے بوسٹن میں کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کا سر تن سے جدا کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سے قبل میامی میں کرسٹوفر کولمبس کے مجسمے کو تباہ کیا گیا اور اس کے علاوہ ورجینیا میں بھی کولمبس کے مجسمے کو گھسیٹ کر جھیل میں پھینک دیا گیا۔
اطالوی مہم جو کرسٹوفر کولمبس، جن کے بارے میں سکول کی کتابوں میں لکھا گیا کہ انہوں نے ’نئی دنیا‘ دریافت کی، کو بہت سے لوگ امریکہ میں مقامی باشندوں کی نسل کشی کرنے والا سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا ونسٹن چرچل بھی نسل پرست تھے؟Node ID: 483766
-
انڈیا میں بھی نسل پرستی اور ذات پات پر بحثNode ID: 484256
-
غلاموں کی تجارت کرنے والوں کے مجسمے نشانے پرNode ID: 484296
بوسٹن میں لگا کولمبس کا مجسمہ امریکہ میں لگائے گئے ان کے باقی مجسموں کی طرح کئی برسوں سے متنازع رہا ہے اور اسے ماضی میں بھی تباہ کیا جاتا رہا ہے۔
بوسٹن پولیس کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ پولیس کو منگل کی رات مجسمہ تباہ ہونے کے بعد فوری اطلاع ملی اور اس حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
مجسمے کے قریب جاگنگ کرتی ایک خاتون نے کہا کہ وہ مجسمے کے سر کو قلم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔ ’میرا خیال ہے کہ یہ اچھا ہوا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کالے رنگ کے لوگوں کی طرح اس ملک میں مقامی باشندوں کے ساتھ بھی برا سلوک ہوتا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ تحریک بہت طاقتور ہے اور یہ علامتی ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/June/36496/2020/063_1248779769.jpg)