اس سے قبل پیر کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد جہانگیر اعوان نے ایف آئی اے کو بے نظیر بھٹو کے خلاف نازیبا الزامات لگانے پر سنتھیا رچی کے خلاف کاروائی کرنے اور ثبوت ملنے پر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سنتھیا رچی نے ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے بھی گزشتہ ہفتے سنتھیا رچی کی درخواست پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں رحمن ملک اور دیگر کے خلاف جنسی نوعیت کے الزامات پر مقدمہ درج کرنے سے معذرت کی تھی۔ سیکرٹریٹ تھانے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنتھیا رچی نے الزامات کے حق میں ثبوت پیش نہیں کیے اور ان کی درخواست انتہائی مشکوک ہے۔
اسلام آباد کی عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ شخص ’عزت کو نقصان پہنچانے‘ کے مقدمے میں درخواست دے سکتا ہے اور بے نظیر بھٹو پاکستان کی سابق وزیراعظم اور لاکھوں لوگوں کی رہنما تھیں، اس لیے ان کے خلاف الزامات پر ان کے حامیوں کو ’متاثرہ شخص‘ سمجھا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سینتھیا رچی نے سوشل میڈیا پر بے نظیر بھٹو پر الزامات کے ٹویٹ سے انکار نہیں کیا اس لیے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت جرم واقع ہوا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق تفتیش کرے اور شواہد ملنے پر ایف آئی آر درج کرے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو پیکا کے سیکشن 20 کے تحت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس سیکشن کو کسی بھی ’شخص کی عزت کے خلاف جرم‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
اس کے تحت جو شخص بھی جان بوجھ کر کسی بھی ذریعے سے عوام میں کوئی جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے کسی شخص کی پرائیویسی اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اس کو تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔