ایف آئی اے نے اندراج مقدمے کی درخواست خارج کرنے کی استدعا کی (فوٹو: ٹوئٹر)
اسلام آباد کی ایک عدالت نے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے حوالے سے نازیبا ٹویٹ کرنے پر ایف آئی اے کو پاکستان میں مقیم امریکی شہری سنتھیا رچی کے خلاف کارروائی کرنے اور شواہد ملنے پر ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد جہانگیر اعوان نے پیر کے روز محفوظ فیصلہ سنایا اور کچھ دیر بعد تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) کے سیکشن 20 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی متاثرہ شخص ’عزت کو نقصان پہنچانے‘ کے مقدمے میں درخواست دے سکتا ہے او بے نظیر بھٹو پاکستان کی سابق وزیراعظم اور لاکھوں لوگوں کی رہنما تھیں، اس لیے ان کے خلاف الزامات پر ان کے حامیوں کو ’متاثرہ شخص‘ سمجھا جا سکتا ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ پیکا ایکٹ کی تشریح کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی کا ضلعی صدر بھی متاثرہ فریق ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اسلام آباد کے صدر شکیل عباسی نے سنتھیا رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سینتھیا رچی نے سوشل میڈیا پر بے نظیر بھٹو پر الزامات کے ٹویٹ سے انکار نہیں کیا اس لیے انسداد الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت جرم واقع ہوا ہے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ قانون کے مطابق تفتیش کرے اور شواہد ملنے پر ایف آئی آر درج کرے۔
عدالت نے فیصلے میں مزید لکھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید ہوئے 12 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور سینتھیا رچی نے اتنے سالوں تک کسی متعلقہ فورم یا میڈیا پر ان الزامات کا اظہار نہیں کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 12 سال بعد الزامات لگانا بظاہر بدنیتی ہے۔
سنتھیا رچی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟
عدالت نے ایف آئی اے کو پیکا کے سیکشن 20 کے تحت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اس سیکشن کو کسی بھی ’شخص کی عزت کے خلاف جرم‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
اس کے تحت جو شخص بھی جان بوجھ کر کسی بھی ذریعے سے عوام میں کوئی جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے جس سے کسی شخص کی پرائیویسی اور ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے اس کو تین سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
قانون کے مطابق اس طرح کے کیس میں متاثرہ شخص یا اس کے ورثا ایف آئی اے کو ایسی اطلاعات کو بلاک کرنے کی درخواست بھی دے سکتے ہیں اور ایف آٗئی اے اس سلسلے میں حکم جاری کر سکتی ہے۔
تاہم سنیچر کے روز عدالت میں دوران سماعت بلاگر سنتھیا رچی کے وکیل ناصر عظیم خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کوئی ٹویٹ ریکارڈ پر ہے کہ میری موکلہ نے ٹویٹ کر کے بے نظیر بھٹو پر الزام لگایا اور کیا ثبوت ہے کہ ٹویٹ سنتھیا رچی نے کی، کیا کسی متعلقہ ادارے سے اس کی تصدیق کروائی گئی؟
ان کا کہنا تھا کہ کہا جا رہا ہے کہ نو سال تک سنتھیا رچی خاموش کیوں رہیں؟ سنتھیا رچی چونکہ غیرملکی ہیں تو انہوں نے 2011 میں واشنگٹن ڈی سی میں درخواست دی تھی۔