اسلام آباد ہائی کورٹ نے امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کی مقدمہ درج کرنے کے عدالتی فیصلے کے خلاف درخواست مسترد کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت ایف آئی اے کی تحقیقات میں مداخلت نہیں کرسکتی، ایف آئی اے سنتھیا ڈی رچی کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھے۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مقامی عدالت کے فیصلے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم کیس کے میرٹس پر نہیں جائیں گے لیکن ایف آئی آر کا حکم نہیں دیا گیا۔ یہ انکوائری ہے اور ایف آئی اے نے اس معاملے کو دیکھنا ہے۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ایف آئی اے کو انکوائری کرکے سنتھیا رچی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
سنتھیا ڈی رچی کے وکیل کا عدالت کے سامنے کہنا تھا کہ جہاں ایف آئی اے کو مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا ہم نے اس کو چیلنج کیا ہے۔
دوسری طرف سنتھیا رچی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرے ساتھ 2011 میں جو کچھ ہوا اس سے متعلق امریکی سفارت خانے کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا، اوراب بھی امیرکن سٹیزن سروسز کے ساتھ رابطے میں ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کو اس واقعے کے بارے میں بتانے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔
’جس شخص نے مجھ پر حملہ کیا وہ پی پی پی دور میں ملک کا طاقت ور شخص تھا ۔‘
سنتھیا رچی کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے ملک ریاض کی بیٹیوں کی دوسری خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو دیکھی تو مجھے اپنا کیس یاد آیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میری اصل ٹویٹ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا۔ ٹویٹ کا مقصد کسی بھی فرد بالخصوص مرنے والی خاتون کی بےعزتی کرنا نہیں تھا۔‘
’مجھے یقین ہے کہ سچ اور انصاف کی فتح ہو گی، پاکستان زندہ باد۔‘