Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چھ ماہ بعد بھی پروازیں بحال کروا لیں تو یہ کارنامہ ہوگا‘

یورپ اور برطانیہ کی طرف سے پابندی کے بعدوفاقی وزیر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان کی جانب سے پی آئی اے کے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں اور مشکوک لائسنسوں کے انکشاف کے نتیجے میں یورپی یونین اور برطانیہ کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی کے بعد وفاقی وزیر کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
ناقدین کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر پارلیمان میں بیان دینے کے بجائے خاموشی سے قانونی کارروائی مکمل کرتے اور سزائیں دینے کے بعد اعلان کرتے تو دنیا ان کی تعریف کرتی۔ انھوں نے بغیر ثبوتوں کے الزام لگا دیا۔ یہ پائلٹ عدالت سے حکم امتناعی لے آئیں گے تو معاملہ طوالت اختیار کر جائے گا۔ 
سابق ڈی جی سول ایوی ایشن ائر مارشل ریٹائرڈ یوسف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اس معاملے یکسر الٹ انداز میں ہینڈل کیا گیا ہے۔ اس وقت ایوی ایشن ڈویژن میں ایک بھی بندہ ہوا بازی کا بیک گراؤنڈ نہیں رکھتا۔ دو سال سے ڈی جی سول ایوی ایشن نہیں ہے۔ سی اے اے کا بورڈ مکمل نہیں ہے۔ کون تھا جو وزیر کو بتاتا کہ معاملے کو کس انداز سے حل کیا جائے تو بہتر ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پہلی بات یہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ 262 لوگوں کی ڈگری یا لائسنس جعلی ہو نہیں سکتے۔ دوسری بات یہ کہ حکومت یا وزیر اتنی بڑی تعداد میں جعلی لائسنس ثابت نہیں کرسکیں گے۔ لوگ عدالت چلے جائیں گے اور حکم امتناعی لے کر واپس آ جائیں گے۔ ‘
ایک سوال کے جواب سابق ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ ’اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور میرے علم میں یہی معلومات آتیں تو میں کسی کو بتائے بغیر تحقیقات کرتا، ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کرتا اور قانون کے مطابق سخت سزا دینے کے بعد ٹی وی پر آتا۔ لوگوں کو بتاتا کہ ہمارے نظام میں چند لوگوں نے خرابی کرنے کی کوشش تھی۔ ہم نے ان کو کڑی سزا دی ہے۔ ان کو جیل میں ڈالا اور نوکریوں سے نکالا ہے اور اب ہمارا نظام بالکل شفاف ہے۔ اس سے دنیا پاکستان سے خوش ہوتی اور پاکستانی اداروں پر اس کا اعتماد بڑھتا۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ 'اصل میں اس معاملے کو ڈاؤن پلے کرنا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین سول ایوی ایشن کے ساتھ  ہمارے معاملات پہلے بھی مثالی نہیں تھے۔ وہ ہمیں مینٹیننس اور سروسز کے معیار کے معاملے پر پہلے بھی لکھتے رہے ہیں۔ وزیر کے پارلیمان کے بیان میں تو اگلے پچھلے جرائم پائلٹوں کے کھاتے میں ڈال کر دنیا کو دعوت دی گئی کہ وہ ہمارے خلاف کراروائی کرے۔‘
کیا چھ ماہ سے پہلے کوششیں کرکے اس پابندی سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے؟
اس سوال پر یوسف چوہدری نے کہا کہ ’اگر چھ ماہ کے بعد بھی پروازیں بحال کروا لی گئیں تو یہ ایک کارنامہ ہوگا۔ صرف پائلٹوں کی ڈگری ہی نہیں سروسز کے حوالے سے بھی سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔ ان کی شکایات کو حل کرنے کے بعد انھیں دیکھنے کی دعوت دی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ وہ پہلے وزٹ میں مطمئن نہ ہوں اور مزید سوالات دے جائیں۔ جب وہ بھی حل کر دیں گے تو ہی اجازت مل سکے گی۔‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیرہوا بازی کو اعلان کرنے سے پہلے قانونی کارروائی کرنی چاہیے تھی (فوٹو: اے ایف پی)

سرکاری امور میں جب بھی کسی ملازم سے کوئی غلطی یا جرم سرزد ہوتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کا ایک طریقہ کار قواعد میں موجود ہے۔
سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رؤف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پائلٹوں کی ڈگری کا معاملہ پہلے سے ہی چل رہا تھا۔ پہلے پی آئی اے نے کچھ پائلٹ نکالے تھے جنھوں نے عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ 
ان کے مطابق ’قانون کے تحت پی آئی اے کو چاہیے تھا کہ وہ مشکوک پائلٹوں کو ڈیوٹی نہ دیتے اور سول ایوی ایشن کو ان کے لائسنسوں کی تصدیق کا لکھ دیتے اور وہ ان تمام پائلٹوں کو نوٹس جاری کرتی اور پوچھتی کہ آپ اپنے لائسنس کے بارے میں وضاحت کریں۔ یک مشت سو دو سو لوگوں کو بغیر نوٹس کے نکالنے سے وہ سب عدالت کا جا سکتے ہیں کہ انھیں سنے بغیر نکالا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر آج (منگل) کو کابینہ ان پائلٹوں کو نکالنے کی منظوری دے بھی دے تو بھی سول ایوی ایشن کو قواعد میں دیے گئے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے نوٹس جاری کرنا ہوں گے بصورت دیگر کابینہ کا فیصلہ بھی چیلنج ہو سکتا ہے اور پائلٹ کہہ سکتے ہیں کہ ان کو سنا نہیں گیا۔‘
رؤف چوہدری کے مطابق وفاقی وزیر کو محکمانہ اجلاس میں کارروائی کی ڈائریکشن دے کر معاملہ متعلقہ حکام کے سپرد کر دینا چاہیے تھا۔ پارلیمان میں ان کے بیان کو یورپ میں سنجیدہ لیا جانا فطری ہے کیونکہ وہاں پارلیمان میں کی گئی بات کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ اب چونکہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہوگیا ہے۔ اب ایسے اقدامات لینے کئ ضرورت ہے کہ یورپی یونین کو یہ پابندی ختم کرنے کے حوالے سے جلد از جلد قائل کیا جا سکے جو کہ اتنی جلدی ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔‘

’ وزیر کو سو فیصد یقین بھی تھا تو بھی سب سے پہلے اس سارے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں تھیں‘ (فوٹو: روئٹرز)

ایک اور سابق بیوروکریٹ فضل اللہ قریشی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اگر پائلٹوں کی ڈگریاں یا لائسنس جعلی تھیں بھی اور وزیر کو سو فیصد یقین بھی تھا تو بھی سب سے پہلے اس سارے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیئں تھیں۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں وزیر کو بیان دینا چاہیے تھا۔ تحقیقات سے پہلے اتنا بڑا بیان احمقانہ اور بچگانہ ہے کیونکہ آپ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بے شک تحقیقات میں کراچی طیارہ حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کو ٹھہرایا گیا ہے لیکن حادثات تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر آپ ساری فلیٹ کو ہی غلط تو قرار نہیں دے سکتے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں سول ایوی ایشن کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تحقیقات کرنے والے اپنے طیارے کا نقص تھوڑی بتائیں گے۔‘
فضل اللہ قریشی کے مطابق ’پی آئی اے یا سول ایوی ایشن وزیر کے بیان پر وضاحتی بیان دے کر صورت حال کو کنٹرول کرسکتے تھے لیکن دونوں اداروں کی طرف سے کسی قسم کی وضاحت نہ آنے سے معاملات مزید خراب ہوگئے۔‘

شیئر: