Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیانا ایوارڈ: ’یہ پاکستان کے لیے اعزاز ہے‘

یہ ایوارڈ منتخب کردہ شخصیات کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے (فوٹو بشکریہ:رائنہ خان)
پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کرنے والی 18 سالہ رائنہ خان برکی کو لیڈی ڈیانا ویلفیئر آرگنائزیشن کی جانب سے 'ڈیانا ایوارڈ' سے نوازا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ منتخب کردہ شخصیات کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں لیڈی ڈیانا کی یاد میں دیا جاتا ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی رائنہ خان برکی لڑکیوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے 'زنانہ فاؤنڈیشن' کے نام سے این جی او چلا رہی ہیں جہاں نہ صرف سکول میں لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے بلکہ ان کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ ہنر سیکھ کر معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے رائنہ خان برکی نے بتایا کہ 'یہ ایوارڈ میرے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے کیونکہ اس سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان میں بہت کچھ پوزیٹیو بھی ہو رہا ہے۔'
اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنا بڑا اعزاز اپنے نام کرلینے والی رائنہ نے اپنے اس سفر کے حوالے سے بتایا کہ 'شاید یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کن لگے مگر میں بچپن سے ہی کچھ مختلف سوچتی تھی۔ میرے والد نے ایک اولڈ ایج ہوم کھول رکھا تھا جہاں لوگ اپنے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ اکثر سکول سے چھٹی کے دن میں وہاں جایا کرتی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارتی تھی، ان کی کہانیاں سنتی تھی۔'
خواتین کے لیے فاؤنڈیشن کے قیام کا خیال کیسے آیا، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ 'میرے والد نے جو اولڈ ایج ہوم بنایا تھا کچھ عرصہ بعد وہ ختم ہوگیا لیکن جب میں 15 سال کی ہوئی تو مجھے خواتین کی بہتری کے حوالے سے کچھ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔'
'ہمارے گھر میں رضیہ باجی کام کرتی تھیں جن کے شوہر ان کو مارتے پیٹتے تھے اور وہ ہمارے گھر آکر روتی تھیں۔ وہ اپنی بچیوں کو پڑھانا چاہتی تھیں اسی لیے گھروں کا کام کرتی تھیں مگر ان کے شوہر بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔'

رائنہ نے بتایا ککہ اکثر سکول سے چھٹی کے دن میں اولڈ ایج ہوم جایا کرتی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارتی تھی (فوٹو بشکریہ: رائنہ خان)

رائنہ کہتی ہیں کہ 'میں نے انہیں کہا کہ آپ اپنے شوہر سے بات کریں کہ وہ بچوں کو میرے پاس بھیجیں انہیں پاکٹ منی بھی ملا کرے گی۔ اس لالچ میں انہوں نے بچوں کو میرے پاس بھیجا اور اس طرح میں نے انہیں پڑھانا شروع کیا۔'
رائنہ خان برکی نے بتایا کہ 'دراصل یہ سب ایک ڈائننگ ٹیبل سے شروع ہوا، میں ڈائننگ ٹیبل پہ ان بچوں کو پڑھاتی تھی اور پاکٹ منی کے لالچ میں ان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے کزنز اور ان کے محلے کے کچھ بچے بھی میرے پاس آنے لگے۔'
انہوں نے کہا کہ 'جب تعداد بڑھنے لگی تو میں اپنی سوسائٹی کے پارک میں بچوں کو لے جایا کرتی اور وہاں بیٹھ کر پڑھاتی مگر کچھ ہی دن بعد پارک انتظامیہ نے ہمیں وہاں بیٹھنے سے روک دیا۔'
'یہ وہ وقت تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ اب میں نے کیا کرنا ہے۔ میں یہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکیوں کے لیے اگر مجھے کچھ کرنا ہے تو سب سے اہم ان کی تعلیم ہے۔ میں نے اپنے کلاس فیلوز اور دوستوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ہم نے اپنی کچھ سیونگز سے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا اور اس طرح 2017 میں زنانہ فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کے تحت سکول بھی کھولا۔'

رائنہ کہتی ہیں کہ میں یہ سمجھ گئی تھی کہ لڑکیوں کے لیے اگر مجھے کچھ کرنا ہے تو سب سے اہم ان کی تعلیم ہے (فوٹو بشکریہ: رائنہ خان)

رائنہ نے بتایا کہ 'میں اس وقت او لیولز کر رہی تھی اور میں یہ جانتی تھی کہ وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو باہر اپلائے کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے 'کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ' کی کیا اہمیت ہے۔ پاکستان میں تو اس سرٹیفکیٹ کا کوئی کانسیپٹ نہیں مگر باہر کے ممالک میں آپ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ 30 گھنٹے کسی سماجی کام میں صرف کیے ہوں، یہ سرٹیفکیٹ اسی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں نے نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ پروگرام رکھا اور ساتھ یہ واضح کیا کہ اس  پروگرام کے ذریعے انہیں 'کمیونٹی سروس سرٹیفکیٹ' دیے جائیں گے۔ یہ وہ چیز تھی جس کی وجہ سے ہماری یوتھ اٹریکٹ ہوئی اور انہوں نے ہمیں جوائن کیا۔'
رائنہ نے بتایا کہ 'ہم لوگ سلم ایریاز میں جاتے تھے اور شروع میں تو بہت مایوسی بھی ہوئی کیونکہ لوگ بات نہین سنتے تھے اور کہتے تھے تھے ہم اپنے بیٹے کو بھیج دیں گے مگر اپنی بچی کو نہیں کیونکہ اس نے کیا کرنا ہے۔'
'میں نے پھر اس کا یہ حل نکالا کہ وہ والدین جو اپنے بیٹے کو مفت پڑھوانا چاہتے تھے ان کے لیے یہ شرط رکھ دی کہ ساتھ اپنی بیٹھی کو بھی بھیجیں۔'
رائنہ خان برکی 2017 میں یو ایس سمر سسٹر پروگرام کے لیے منتخب ہونے والی 23 پاکستانی نوجوانوں میں سے ایک تھیں اور 2018 میں وہ پہلی پاکستانی تھیں جو گلوبل یوتھ ایمبیسیڈر لیڈر شپ سمٹ کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔

رائنہ خان برکی کہتی ہیں کہ  'شاید یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کن لگے مگر میں بچپن سے ہی کچھ مختلف سوچتی تھی' (فوٹو بشکریہ :رائنہ خان برکی)

رائنہ خان برکی مشہور پاکستانی گلوکار عدیل برکی کی صاحبزادی ہیں اور ان کا تعلق پٹھان فیملی سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 'مجھے اپنے والدین کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے، جب میں باہر گئی تب خاندان کے کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ لڑکی کو باہر کیوں بھیج رہے ہو مگر میرے والد نے میرے لیے سٹینڈ لیا اور ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔'
رائنہ اپنا اے لیولز مکمل کر چکی ہیں اور مستقبل میں قانون دان بننے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اپنے مستقبل کے منصوبے کے حوالے سے رائنہ خان نے بتایا کہ 'پہلے میرا ارادہ تھا کہ ملک سے باہر جا کر اپنا کریئر بناؤں مگر اب میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا ہے کیونکہ ابھی میں نے اپنے ملک کی لڑکیوں کے لیے بہت کرنا ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے یہاں خواتین کے لیے قوانین اس طرح سے موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں بہت مسائل کا سامنا ہے، میری خواہش ہے کہ میں اس میں اپنا کردار ادا کروں۔'

شیئر: