آیا صوفیہ بازنطینی عیسائیوں اور مسلمان سلطنت عثمانیہ کا اہم تاریخی مرکز ہونے کے علاوہ ترکی آنے والے سیاحوں کے لیے معروف ترین مقام ہے۔
صدر طیب اردوگان نے فیصلے کی تصدیق کے فرمان پر دستخط کر دیے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جس تصفیے کے مطابق آیا صوفیہ کو مسجد کا درجہ دیا گیا تھا اس کے تحت اس کو مسجد کےعلاوہ استعمال کرنا قانونی نہیں ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ 1934 میں کابینہ نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آیا صوفیہ کو مسجد کے بجائے میوزیم کا درجہ دیا تھا۔
ترک صدر کا اعلان عدالتی فیصلے کے بعد آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ آیا صوفیہ کو واپس مسجد کا درجہ دیا جائے گا۔
امریکی، یونانی اور دیگر ممالک کے عیسائی مذہبی رہنماؤں نے چھٹی صدی کے اس اثاثے کا درجہ تبدیل ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
آیا صوفیہ کو مصطفیٰ کمال اتاترک کے دور حکومت میں میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
آیا صوفیہ سے متعلق کیس سامنے لانے والی ایسوسی ایشن کے مطابق یہ تاریخی عمارت سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد دوم کی پراپرٹی تھی۔
سلطان محمد نے 1453 میں اس وقت قسطنطنیہ کہلائے جانے والے شہر پر قبضہ کیا تھا اور نو سو سال پرانے بازنطین گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔
30 کروڑ ارتھوڈوکس مسیحوں کے روحانی رہنما اکیومینیکل پیٹریارک بارتھولومیو کا کہنا تھا کہ اگر عدالت جمعے کو آیا صوفیہ کو مسجد کا درجہ دینے کا اعلان کرتی ہے تو اس فیصلے سے مسیحوں کو مایوسی ہوگی اور یہ مشرق اور مغرب میں دراڑ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور یونان نے بھی ترک حکومت کو آیا صوفیہ کا عجائب گھر کا درجہ قائم رکھنے کا کہا تھا۔