ترکی کے اعلیٰ ترین انتظامی ادارے کونسل آف سٹیٹ نے جمعرات کو 1500 برس پرانے گرجا گھر اور یونیسکو کی جانب تاریخی ورثہ قرار دیے جانے والے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے سے متعلق فیصلہ موخر کر دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق کونسل آف سٹیٹ 15 روز میں اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آیا سیاحوں کی تفریح کے مرکز اور بازنطینی دور کی یادگار کو ایک عجائب گھر سے مسلمانوں کی عبادت گاہ میں تبدیل کرنا چاہیے یا نہیں۔
اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی تحریک کو ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی جانب سے مذہبی اور قدامت پسند ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ایک حربہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس عمل کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے، عمارت کی حیثیت اور اس کے مستقبل کا تعین اے کے پی کی انتخابی مہم کا ایک اہم موضوع تھا۔
مزید پڑھیں
-
ترکی جانے والے سعودی سیاحوں کی تعداد میں کمی کیوں؟Node ID: 431386
-
’امریکہ ترکی پر پابندیاں لگانے کو تیار‘Node ID: 438031
-
اردوان کا اصل حریف کون ہے؟Node ID: 449961
-
ترکی اور ایران کی پالیسیوں کا مقابلہ کریں گے:عرب پارلیمنٹNode ID: 487691
ترکی کی سیکولر جماعتوں اور عالمی برادری کی جانب سے اس مہم کی مخالفت کے باوجود ملک کے قدامت پسندوں کی جانب سے اس گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
آیا صوفیہ میں عبادت پر 1934 سے پابندی عائد ہے۔ یہ گرجا گھر چھٹی صدی عیسوی میں بازنطینی شہنشاہ جسٹینن کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور چار پوپ بھی اس کا دورہ کر چکے ہیں۔
اگرچہ انقرہ کے کئی مغربی حکومتوں کے ساتھ گرم جوشی والے تعلقات نہیں ہیں، اور ایک ایسے اثاثے جس کے عالمی سیاسی اور مذہبی اثرات بھی ہیں کو اس طرح کے نظریات سے متاثرہ فیصلے سے تبدیل کرنے پر کئی اہم ممالک خصوصاً امریکہ اور یونان کے ساتھ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
یونان کی وزیر ثقافت لینا میندونی نے حال ہی میں ترکی پر جنونی قوم پرستی اور مذہبی جذبات ابھارنے کا الزام عائد کیا ہے، جبکہ یونیسکو نے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے قبل وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ایک ماہ قبل جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان سے ایک انٹرویو کے دوران یونان کی ناراضی کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سراسر قومی خودمختاری کا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/July/37246/2020/hagia_sophia_afp_6.jpg)
'انہوں نے یہ کہنے کی جرات کیسے کی کہ آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل نہ کریں، کیا آپ ترکی پر حکومت کر رہے ہیں یا ہم؟'
چند حالیہ پولز کے مطابق اگر ترکی میں قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو اے کے پی کی حمایت میں کمی آئے گی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آیا صوفیہ کے حوالے سے مہم کا تعلق اسی کم ہوتی عوامی حمایت سے ہی جڑا ہے۔
اتفاق سے گذشتہ برس مقامی حکومتوں کے انتخابات کے دوران ہی رجب طیب اردوغان کا آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا بیان سامنے آیا تھا۔
حال ہی میں ایک آزاد ادارے میٹروپول کی جانب سے ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق 44 فیصد ترک عوام کا خیال ہے کہ آیا صوفیہ کا معاملہ ترکی کی اقتصادی صورت حال سے توجہ ہٹانے کے لیے چھیڑا گیا، جبکہ حکومت کے حامی چینلز پر ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ مقام اصل میں ایک 'شاپنگ مال' تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/July/37246/2020/hagia_sophia_afp_1.jpg)
ترک یونان تعلقات اور یونیورسٹی آف ایتھنز میں بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ایکاوی ایتھناس پولو نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'جب آپ ایک عالمی ورثے کے تناظر میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو متحرک کرتے ہیں تو یہ آپ کی طاقت کو نہیں بلکہ کمزوری کی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔'
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے حال ہی میں خبردار کیا کہ آیا صوفیہ کی حیثیت میں کوئی بھی تبدیلی مختلف اقوام اور ثقافتوں کے مابین 'بہت ضروری پُل' کی سی اس کی حیثیت کو کمزور کر دے گی۔
گذشتہ ہفتے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی سفیر سیم براؤن بیک نے ترکی سے کہا تھا کہ وہ عمارت کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو زیا میرل کا کہنا ہے کہ اس مہم کا مقصد اے کے پی کے حلقوں کو خوش کرنا ہے، ان میں سے اکثریت گرجا گھر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی دہائیوں پرانی خواہش کی تکمیل چاہتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/July/37246/2020/hagia_sophia_afp_6_0.jpg)