Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ کی پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی

امریکہ نے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کی رپورٹس پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
یورپ کے بعد امریکہ نے بھی  پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی  پروازوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکہ نے پاکستانی پائلٹس کے لائسنس کے معاملے پر کارروائی  کرتے ہوئے ڈائریکٹ فلائٹس کے علاوہ خصوصی پروازوں کو بھی معطل کیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان سے تاریخ میں پہلی بار امریکہ کے لیے براہ راست فلائٹس حال ہی میں شروع کی گئی تھیں اور امریکی ایوی ایشن نے طویل گفت وشنید کے بعد پی آئی اے کو براہ راست فلائٹس آپریٹ کرنے کی اجازت دی تھی۔
پی آئی اے کے ترجمان عبد اللہ حفیظ نے اردو نیوز کے نامہ نگار وسیم عباسی کو تصدیق کی کہ امریکہ نے پی آئی اے کی فلائٹس پر پابندی عائد کی ہے۔
ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پابندی کتنے عرصے لے لیے لگائی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
یاد رہے کہ 22 مئی کو پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 8303 کو کراچی میں پیش آئے والے حادثے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد 'جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس' کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد سے قومی ایئر لائن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین نے پاکستانی پائلٹس پر یورپی ایئر لائنز کے طیارے اڑانے کی پابندی عائد کر دی تھی اور اس سے قبل پی آئی اے کے پائلٹس کے جعلی لائسنسوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی نے پی آئی اے کے یورپین ممالک کے لیے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے۔
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے اپنے تمام رکن ممالک سے سفارش کی ہے کہ پاکستانی لائسنس یافتہ پائلٹس کو جہاز اڑانے سے روکا جائے۔ ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے تمام پاکستانی پائلٹس کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں۔


 پی آئی کا طیارہ تباہ ہونے کے بعد پائلٹس کے لائسنس کا معاملہ سامنے آیا۔ فوٹو اے ایف پی

یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کی جانب سے تمام رکن ممالک کو جاری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے40 فیصد لائسنسوں میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔ ہدایت نامے میں مزید کہا گیا ہے ہے کہ ان میں کچھ لائسنس کے جعلی ہونے کی شکایات ہیں یا پھر بین الاقوامی سول ایوی ایشن کے قوانین کی پابندی نہ کرتے ہوئے جاری کیے گئے ہیں، جو ای اے ایس اے  کے لیے باعث تشویش ہے۔

 

شیئر: