Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’پی ٹی وی فیس کا پیسہ جاتا کہاں ہے‘

پی ٹی وی کے زیراہتمام نصف درجن سے زائد چینلز فعال ہیں (ٖفوٹو: پی ٹی وی)
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کے لیے بجلی کے بلوں میں جمع کی جانے والی فیس میں تقریباً تین گنا کا یکشمت اضافہ کرتے ہوئے اسے 35 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 100 روپے ماہانہ کرنے کی خبر سامنے آئی تو سوشل میڈیا صارفین نے طنز، تنقید اور ماضی کھنگالنے کی ساری کاوشیں آزما ڈالیں۔
پی ٹی وی فیس کے معاملے پر سامنے آنے والی اطلاعات میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے ایک سرکلر کے ذریعے وفاقی کابینہ سے پی ٹی وی فیس میں اضافے کی منظوری لی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ فیس 35 روپے سے بڑھا کو 100 روپے کیے جانے سے صارفین پر سالانہ 23 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔
سوشل میڈیا صارفین نے پی ٹی وی فیس میں اضافے اور اس کے استعمال کو موضوع بحث بنایا تو وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں ایک جلسے سے خطاب کی ٹویٹ بھی پھر سے گردش کرنے لگی۔
پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ہینڈل سے کی گئی ٹویٹ 16 نومبر 2014 کو جہلم میں عمران خان کے خطاب کی ہے۔ اس میں عمران خان کہتے ہیں کہ ’ہر ماہ لائسنس فیس کے نام پر 35 روپے وصول کیے جاتے ہیں جو ہر سال 10 ارب روپے بنتے ہیں لیکن کچھ پتا نہیں اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے‘۔
 

وزیراعظم کا پرانا بیان اور اس کی ویڈیوز سامنے آئیں تو کچھ صارفین نے فوراً عمران خان کو تجویز دی کہ وہ ڈی چوک پر اس اضافے کے خلاف احتجاج کریں۔
 

پی ٹی وی فیس کے معاملے پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے کراچی کے علاوہ ملک بھر کے بجلی صارفین سے فیس لیے جانے کا ذکر کیا تو لگے ہاتھوں یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ پی ٹی وی کی نجکاری کر دی جائے تاکہ حکومت اور لوگوں پر بوجھ نہ پڑے۔
 

صدام عباسی معاملے کے مختلف رخ کے ساتھ سامنے آئے تو شکوہ کیا کہ ان کے گھر ٹیلی ویژن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پندرہ برسوں سے یہ فیس دیے چلے جا رہے ہیں۔

صغیر بٹ نے پی ٹی وی فیس پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کیا تو لکھا کہ ’بس گھبرانا نہیں بچو‘۔
 

بہت سے صارفین فیس میں اضافہ کرنے یا نہ کرنے پر بحث کرتے رہے تو کچھ ایسے بھی تھے جو مجوزہ اضافے کے بہتر استعمال سے متعلق تجاویز دیتے رہے۔
ناصر محمود شیخ نے فیس بک پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’ٹی وی کے نام پر وصول ہونے والے 100 روپے میں سے 25 روپے ریسکیو 1122 کو دے دیں تاکہ وہ جدید گاڑیاں اور آلات خرید سکے‘۔
 

ریسیکیو 1122 ہنگامی خدمات کا سرکاری ادارہ ہے جو حادثات وغیرہ کی صورت میں زخمیوں کو طبی مراکز منتقل کرنے کے علاوہ عام حالت میں مریضوں کو ہسپتال تک پہنچانے کی خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن کو پاکستانی ٹیلی ویژن کارپوریشن کے نام سے چلایا جاتا ہے۔ 26 نومبر 1964 کو نجی ادارے کے طور پر شروع کیے جانے والے چینل کو 1970 میں اس وقت کی حکومت نے قومیا لیا تھا۔ 1990 تک پی ٹی وی پاکستان میں فعال اکلوتا ٹی وی چینل تھا۔ ملک کے آٹھ مختلف شہروں میں اہم دفاتر رکھنے والے ادارے کے زیراہتمام خبروں، کھیلوں سمیت علاقائی زبانوں اور دیگر موضوعات کے متعدد چینلز چلتے ہیں۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: