کورونا: مویشی منڈیوں میں ایس او پیز پر کتنا عمل ہو رہا؟
کورونا: مویشی منڈیوں میں ایس او پیز پر کتنا عمل ہو رہا؟
اتوار 19 جولائی 2020 6:16
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
عیدالاضحیٰ کے قریب آتے ہی ملک بھر میں چھوٹی بڑی مویشی منڈیوں کا با قاعدہ آغاز ہو چکا ہے۔ حکومت نے ان منڈیوں میں کورونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مخصوص ایس او پیز جاری کیے ہیں اور عوام کو بار بار تنبیہہ کی ہے کہ وہ جانوروں کی خرید و فروخت کے وقت احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تا کہ بیماری کے مزید پھیلاؤ سے بچا جا سکے۔
حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر عید الفطر کی طرح اس عید پر بھی عوام نے بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا تو قابو میں آتی وبا ایک مرتبہ پھر پھیل جائے گی اور اس سے بچاؤ کے لیے ایک نئی جنگ لڑنا پڑے گی۔
لیکن کیا عوام حکومت کی ان ہدایات پر عمل کر رہے ہیں اور کیا مویشی منڈیاں واقعی وائرس پھیلانے والے مراکز کی حیثیت رکھتی ہیں؟
ان سوالات کے جوابات اب تک لگنے والی منڈیوں میں ہونے والے کاروبار اور آمد و رفت کا جائزہ لے کر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں سپر ہائی وے کے پاس لگنے والی منڈی ملک کی سب سے بڑی مویشی منڈی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس کا آغاز کئی ہفتے پہلے ہو گیا تھا۔ اس منڈی میں ملک بھر سے آئے بیوپاریوں نے سٹال لگائے ہیں جن پر کراچی کے شہری جوق در جوق آ کر جانوروں کا معائنہ کر رہے ہیں۔
اس منڈی میں بڑے اور چھوٹے جانوروں کے لیے علیحدہ بلاکس قائم کیے گئے ہیں، جبکہ معروف کیٹل فارمز کے لیے وی آئی پی بلاک علیحدہ سے ہے۔
منڈی کے ترجمان یاور چاولہ کے مطابق اس سال منڈی کے وی آئی پی بلاک میں ایسی تمام سرگرمیوں کی ممانعت ہے جس سے بھیڑ ہو۔ بیوپاریوں کو بھی منڈی انتظامیہ کی جانب سے ایس او پیز کی پابندی کے لیے خاص ہدایات دی گئی ہیں، اور اس بات کی بھی تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے احاطے میں زیادہ لوگوں کو جمع ہونے نہ دیں۔ اس حوالے سے خاصی سختی بھی کی جا رہی ہے لیکن بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کے رش کے وقت ایس او پیز پر عملدرآمد مشکل ہوتا ہے۔
مویشی منڈی میں دن کے وقت تو زیادہ رش نہیں ہوتا اور گرمی کی وجہ سے گاہک نہیں آتے، البتہ شام اور رات کے اوقات میں منڈی آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، خاص کر چھٹی کے دنوں میں۔
سنیچر کی رات منڈی جانے والے ایک خریدار حنین امین کے مطابق منڈی میں لوگوں کا بہت رش تھا اور پارکنگ میں داخل ہونے کے لیے لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔
'منڈی میں آنے جانے کا راستہ ایک ہی ہے جس پر پیدل چلنے والوں کا رش ہوتا ہے اور اسی راستے پر گاڑیاں بھی آتی رہتی ہیں جن سے بچنے کے لیے لوگ قریب قریب ہو کر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔'
حنین امین نے اردو نیوز کو بتایا کہ منڈی میں بچوں اور خواتین کے علاوہ بزرگ بھی آ رہے ہیں جبکہ ماسک پہننے کی ہدایت پر بھی عملدرآمد نظر نہیں آیا۔
’بالخصوص بیوپاری تو بالکل بھی ماسک نہیں پہن رہے۔‘
جنوبی پنجاب سے اپنے جانور بیچنے کے لیے آنے والے بیوپاری رفیق کا کہنا تھا کہ منڈی میں کورونا سے بچاؤ کے ایس او پیز پر مکمل طور پر عملدرآمد کرنا ممکن نہیں۔
’یہ کام ہی ایسا ہے اس میں بندہ کتنی حفاظت کرے، آتے گاہک کو واپس تو نہیں بھیج سکتے نہ ہی اسے مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ماسک پہنے۔ اپنی ٹیم کے لوگوں کو ہم نے بتا دیا ہے کہ گاہکوں سے بات کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا خیال کریں۔ اس بار تو بیماری پھیلنے کے خوف سے ہم گاہکوں کی تواضع بھی نہیں کر سکتے۔‘
محکمہ داخلہ سندھ نے منڈی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں دوبارہ ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں منڈی میں آنے والوں اور بیوپاریوں کے لیے ضابطہ کار درج ہے۔ اس سے پہلے کمشنر کراچی افتخار شلوانی بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے منڈی میں لوگوں کی آمدورفت اور وہاں ہونے والی کاروباری سرگرمیوں کا ضابطہ کار متعین کر چکے ہیں۔
چند دن پہلے جاری ہوئے نوٹیفیکیشن میں تو محکمہ داخلہ سندھ نے یہ تک بتایا کہ منڈی میں جانوروں کا احاطہ ایسے لگایا جائے تا کہ لوگ ایک راستے سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے باہر جائیں، ایک ہی جانب سے آنا جانا نہ ہو۔
منڈی کے ترجمان یاور چاولہ کے مطابق منڈی میں بار بار لاوڈ سپیکر سے بھی ایس او پیز اور ان پر عملدرآمد کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کراچی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ لاہور میں رواں سال معمول کی 18 کے بجائے 12 منڈیاں قائم کی گئی ہیں جو شہر کی رہائشی حدود سے دو سے تین کلومیٹر باہر ہیں۔ لیکن شہر کے اندر مختلف مقامات پر جانوروں کی فروخت کے غیر قانونی مراکز کھل چکے ہیں جہاں بیوپاری جانور بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات کے مطابق تمام منڈیاں شہر سے باہر لگ رہی ہیں، اور کوشش کی جا رہی ہے کہ منڈیوں کی تعداد زیادہ ہو تاکہ ایک جگہ پہ زیادہ لوگ نہ جائیں۔ لیکن ابھی ان منڈیوں میں جانوروں کی آمد کم ہے۔
حمزہ شفقات نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’انتظامیہ اس بات کو ترجیح دے رہی ہے کہ لوگ اجتماعی قربانی میں حصہ لیں تا کہ ایک ہی جگہ چند لوگ قربانی کے عمل کو انجام دیں۔‘
کوئٹہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں قائم ہونے والی مویشی منڈیوں میں بھی ایس او پیز پر عملدرآمد نظر نہیں آ رہا۔
مویشی منڈیوں میں اب تک پیش آنے والی صورتحال کے بعد طبی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس سماجی میل جول کے نتیجے میں کورونا وائرس کے کیسز میں ویسا ہی اضافہ دیکھنے میں آ سکتا ہے جیسا کہ عید الفطر کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔
انفیکشس ڈیزیز کے ماہر ڈاکٹر رفیق خانانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 'جولائی میں کورونا کی شرح اموات میں کمی دیکھی جا رہی ہے، لیکن جس طرح عید سے قبل منڈی میں لوگوں کا اجتماع جاری ہے، خدشہ یہی ہے کہ پہلے جیسی صورتحال پھر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ قربانی کے حوالے سے بھی جامع ایس او پیز مرتب نہیں کیے گئے، جس سے لگتا یہی ہے کہ عید کے دنوں میں بھی لوگوں کا جم غفیر سڑکوں پہ قربانی کر رہا ہوگا۔
'منڈی میں پورے ملک سے آئے بیوپاری موجود ہیں، جن کی اتنی تعلیم نہیں کہ انہیں سماجی فاصلہ سکھایا جا سکے نہ ان کا رہن سہن ایسا ہے، اور سارا شہر ان کے پاس جا رہا ہے۔ اس کے بعد جب قصائیوں کو گھر بلایا جائے گا، تب بھی یہی صورتحال ہو گی۔ آپ کچھ بھی کر کے ایس او پیز پہ عملدرآمد نہیں کرا سکتے۔'