رواں سال 14 مارچ کو جب کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی وجہ سے کراچی میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات پر پابندی لگی تو اورنگی ٹاؤن کے کشیدہ کار محمد شاہد کے پاس چند عروسی ملبوسات تیار پڑے تھے جو انہوں نے اگلے ہفتے ہونے والی شادیوں کے شرکا کے لیے بنائے تھے۔
چار ماہ ہونے کو آئے ہیں، وہ جوڑے اب بھی محمد شاہد کے پاس پڑے ہیں۔ نہ وہ تقریبات ہوئیں، نہ کوئی کپڑے لینے آیا نہ ہی ان کے پیسے ملے اور نہ کوئی نیا آرڈر۔
کراچی کی پسماندہ بستیوں میں سے ایک اورنگی ٹاؤن کے ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہائش پذیر محمد شاہد دو دہائیوں سے عروسی ملبوسات پر کڑھائی کا کام کرتے آئے ہیں۔ مگرجب سے کورونا کی وبا آئی ہے، وہ بے روزگار ہیں۔
محمد شاہد کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث پہلے مارکیٹیں اور شاپنگ مالز بند تھے اور اب شادی بیاہ اور دیگر تمام تقریبات و محافل پر پابندی کی وجہ سے کوئی فینسی اور کڑھائی والے کپڑے بنوا ہی نہیں رہا۔ اب نوبت مقروض ہونے پر آگئی ہے۔
محمد شاہد کی کہانی درحقیقت ان ہزاروں ہنرمندوں کی کہانی ہے جومعروف شاپنگ مالز اور مشہور بازاروں میں شیشیوں میں سجے اور دکانوں میں لٹکے جھلمل کرتے لاکھوں روپے میں بکنے والے خوبصورت ملبوسات کے پیچھے حقیقی کردار ہوتے ہیں۔
اور اورنگی ٹاؤن ایسے فنکاروں کا گڑھ ہے جہاں وہ چھوٹے چھوٹے گھروں میں چند ہزار روپے کی مزدوری کے عوض یہ شاہکار ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ حتیٰ کے کئی معروف برائیڈل ڈریس ڈیزائنرز اور بوتیک بھی اپنا کام ان کاریگروں سے کروا کر اپنے لیبل لگا کر بیچتے ہیں اور ان کے اصل ڈیزائنرز گمنامی میں ہی رہتے ہیں۔
شاہد کا کہنا ہے کہ انہوں نے 14 سال ایک ڈیزائنر کے لیے کام کیا جنہوں نے ملک اور بیرونِ ملک عروسی ملبوسات کی بہت نمائشیں بھی کیں، لیکن کبھی شاہد کو نمائش میں ساتھ نہ رکھا نہ بیرون ملک لے کر گئیں۔
’ان کا تمام تر کام میں دیکھتا تھا اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اس کام کی اسناد دلوائیں گی تا کہ میں بڑی سطح پر کام کر سکوں اور بہتر روزگار کما سکوں، لیکن بعد میں انہوں نے مجھ سے رابطہ منقطع کر لیا۔‘
ڈیزائنر اور فینسی کپڑوں کی تیاری پر ان کاریگروں کو محض 500 سے 600 روپے دیہاڑی ملتی ہے۔
شاہد کے ساتھ آٹھ دیگر لوگ دو شفٹوں میں کام کر کے تین دن میں ایک جوڑا تیار کرتے ہیں۔ کاریگروں کی دیہاڑی، کڑھائی کا سامان اور نقل و حمل کے اخراجات نکال کر شاہد کو ایک جوڑے میں بمشکل پانچ ہزار بچتے ہیں، کیونکہ وہ کپڑوں کی ڈیزائننگ سے لے کڑھائی تک ہر کام خود کرتے ہیں۔
شاہد کا کہنا ہے کہ جب تقریبات پہ پابندی لگی تو ان کے پاس کچھ عروسی ملبوسات کے آرڈر لگے ہوئے تھے جنہیں ایک آدھ دن میں نمٹانے پر زور تھا کیوں کے اگلے ہفتے شادی تھی، تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریب کینسل ہوگئی پھر نہ تو دوکاندار نے وہ جوڑا لیا نہ کبھی اس کے پیسے آئے۔
’لاک ڈاؤن کو چار مہینے ہونے کو آ رہے ہیں، دکانیں اور شاپنگ مالز تو پھر بھی کچھ دیر کو کھل رہے لیکن تمام تر تقریبات پہ مکمل پابندی عائد ہے۔ ایسی صورت میں نہ تو عروسی جوڑوں کی مانگ ہے نہ پارٹی ویئر کی، لہٰذا دکانوں اور بوتیک کی جانب سے جو آرڈر پہلے سے ملے ہوئے تھے، اب دکانداروں نے وہ آرڈر بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے یا اس کی آدھی قیمت دے رہے ہیں۔‘
’مجھے ایک جوڑے میں بچتے ہی چند ہزار ہیں وہ ملنے میں بھی مہینے گزر چکے اور اب دکاندار کہتے کہ چالیس ہزار کا جوڑا 20 ہزار میں چھوڑ جاؤ کیوں کہ گاہک نہیں۔ یہی جوڑا وہ کل کو لاکھ روپے کا بیچیں گے۔‘
متعدد کاریگر بیروزگاری سے تنگ آکر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی ہوٹل پر کام کر رہا تو کوئی تعمیراتی کاموں میں وزن اٹھا رہا ہے۔ اب کپڑوں کی کشیدہ کاری کی ہفتے کی پانچ ہزار مزدوری کے بجائے ایک ہزار کمانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔
شاہد کے ایک شاگرد بلاول آج کل کام نہ ہونے کے باعث ہوٹل پر مزدوری کر رہے ہیں۔ انہیں ہفتے کے 5 سو روپے ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود شاہد کو مجبوری میں کارخانوں میں دیہاڑی پر مزدوری کرنی پڑ رہی ہے تا کہ گھر کا خرچ چل سکے۔
’جس کام کے لیے میں نے کاریگروں کو 600 روپے دیہاڑی پر رکھا تھا، آج خود وہ کام دوسروں کے لیے 500 روپے پر کرنے کی نوبت آ گئی ہے۔‘