'تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے'، محمد رفیع سدا بہار گلوکار
'تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے'، محمد رفیع سدا بہار گلوکار
جمعہ 31 جولائی 2020 10:29
شبانو علی -اردو نیوز، ممبئی
گلوکار محمد رفیع کو مداحوں سے بچھڑے پورے 40 سال ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
برصغیر کے ہردلعزیر گلوکار محمد رفیع کو گزرے ہوئے پورے 40 سال ہو چکے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں شاید ہی گانے سنے کا رسیا ایسا ہو جس نے رفیع کے نغمے نہ سنے ہوں یا ان کی رس بھری آواز نے ان کے کانوں میں شہد نہ گھولی ہو۔
محمد رفیع ہندی سینیما کے ایک ایسے گلوکار ہیں جنھیں سدا بہار کہا کہا گیا ہے۔ جن کے لیے 'بالی وڈ میلوڈیز' نامی کتاب لکھنے والے مصنف گنیش اننتھا رمن نے 'روح کا مغنی' لکھا ہے۔
محمد رفیع کی آواز کا جادو سنہ 1949 سے سنہ 1969 تک سر چڑھ کر بولتا رہا کیونکہ ان کے گیت فلمی دنیا میں کامیابی کی ضمانت سمجھے جانے لگے تھے۔
فلم انڈسٹری کے کسی بھی گلوکار کے پاس اس قدر ورائیٹی نہیں تھی جو محمد رفیع کو قدرت نے ودیعت کی تھی۔ ان کی آواز کسی مجذوب کی بڑ یا فقیر کی دعا کا نتیجہ کہا جاتا ہے۔
خود محمد رفیع نے کئی انٹرویوز میں کہا ہے کہ پنجاب میں ان کے گاؤں میں ایک فقیر آیا کرتا تھا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے ہو لیتے تھے۔ ایک دن فقیر نے ان سے پوچھ لیا کہ وہ ان کے پيچھے کیوں آتے ہیں تو رفیع نے کہا کہ انھیں ان کی آواز بہت پسند ہے اور پھر کیا تھا کہ فقیر کی دعا محمد رفیع کے گلے میں شہد بن کر اتر گئی۔
محمد رفیع کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ راجیندر کمار جنھیں 'جوبلی کمار' بھی کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی فلمیں سینیما ہالز میں سلور جوبلی اور گولڈن جوبلی مناتی تھی یعنی بے حد مقبول ہوتی تھیں، کی کامیابی کو محمد رفیع کی آواز کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ بعض لوگوں کا تو یہ کہنا تھا کہ راجیندر کمار کی فلم سے محمد رفیع کے گیت نکال دو تو ان کی فلموں میں بچتا ہی کیا ہے۔
اسی طرح 'شہنشاہ جذبات' کہلانے والے دلیپ کمار کے لیے بھی محمد رفیع نے ہی بیشتر گیت گائے۔ ان کے بارے میں بھی یہ کہا گیا کہ ان کی کامیابی بہت حد تک محمد رفیع کی مرہون منت ہے۔
چنانچہ ایک زمانے تک دلیپ کمار اور راج کپور کی فلم 'انداز' کے بارے میں یہ افواہیں گشت کرتی رہیں کہ جب معروف ہدایت کار محبوب خان نے اپنے زمانے کے دو ابھرتے ہوئے ستاروں کو ساتھ لانے کوشش کی تو راج کپور نے پہلے یہ شرط رکھی کہ جو کردار دلیپ کمار کو دیا جا رہا ہے وہ انھیں دیا جائے پھر یہ شرط رکھی کہ ان کے لیے جو نغمے ہوں وہ محمد رفیع کی آواز میں ہوں۔ پہلی شرط تو نہیں مانی گئی لیکن دوسری شرط مان لی گئی۔
چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ فلم 'انداز' میں دلیپ کمار نے مکیش کی آواز میں گیت گائے ہیں جبکہ راج کپور نے محمد رفیع کی آواز میں جبکہ عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ راج کپور اپنے لیے مکیش کی آواز کو پسند کرتے رہے جبکہ دلیپ کمار کی آواز کے لیے محمد رفیع کی جگہ کوئی نہیں لے سکا۔ اب اس کہانی میں کتنی صداقت ہے اس کی جانچ آج بہت مشکل ہے لیکن دونوں بڑے اداکاروں کے پرستاروں کے لیے ایک شغل تو مل ہی گیا تھا۔
محمد رفیع کی آواز کی اتنی پرتیں تھیں کہ وہ بیک وقت شمی کپور کے برانڈ گلوکار تھے تو وہیں مزاحیہ کردار ادا کرنے والے جانی واکر کی بھی برانڈ آواز تھے۔
محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو پنجاب میں امرتسر کے پاس کوٹلہ سلطان سنگھ میں حاجی علی محمد کے گھر پیدا ہوئے وہ اپنے چھ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے والد وہاں سے لاہور چلے گئے جہاں ان کی جحام کی دکان تھی۔
محمد رفیع کی آواز کی وجہ انھیں استادوں کے پاس گائیکی کا فن سیکھنے کے لیے بھیجا گیا اور جب وہ محض 13 سال کے تھے تو انھوں نے اس زمانے کے معروف گلوکار کندن لال سہگل کے ساتھ سٹیج شیئر کیا تھا اور سہگل نے ان کی آواز کی بڑی تعریف کی تھی۔
سہگل کی پزیرائی کے باوجود انھیں ممبئی میں جدوجہد کرنی پڑی لیکن اس وقت تک وہ نہ چمکے جب تک انھیں موسیقار نوشاد کا ساتھ نہ ملا اور دلیپ کمار کی فلم میلہ کا گیت 'یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے' نے دھوم نہ مچا دی۔
یہ درست ہے کہ وقت تیز گزرتا گیا یہاں تک کہ لوگوں کے دلوں پر محمد رفیع کی جگہ کشور کمار راج کرنے لگے لیکن یہ کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ خود کشور کمار کے آئیکن محمد رفیع ہوا کرتے تھے جس طرح کبھی محمد رفیع یہ دعا کیا کرتے تھے کہ خدا ان کی آواز کو طلعت محمود جیسی مخملی آواز بنا دے۔
لیکن وہ طلعت محمود سے کہیں آگے نکل گئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت سادہ مزاج اور بے لوث انسان تھے۔
چنانچہ جب وہ حج سے واپس آئے تو کسی نہ ان سے کہہ دیا کہ اب تو آپ حاجی ہو گئے ہیں اب گانا وانا چھوڑیے چنانچہ انھوں نے کچھ دنوں کے لیے گیت گانا چھوڑ دیا۔ پھر جب انھیں قائل کیا گیا تو انھوں نے پھر سے گلوکاری شروع کی۔
محمد رفیع کی زندگی بھی تنازعات سے پاک نہیں ہر چند کہ وہ بہت ہی ملنسار، خوش مزاج اور سادہ انسان تھے۔ انڈیا کی سب سے بڑی گلوکارہ لتا منگیشکر کے ساتھ ان کی ناراضگی تقریبا تین سال تک قائم رہی۔
لتا منگیشکر گلوکاروں کے لیے رائلٹی کی بات کرتی تھیں جبکہ درویش صفت محمد رفیع کو موسیقاروں اور فلم سازوں نے بتا رکھا تھا کہ انھیں تو ان کے گیت کا معاوضہ مل ہی جاتا ہے اور زیادہ کیا لالچ کرنا اس لیے وہ اس موقف کے حامی تھے۔
اس دوران محمد رفیع نے سارے گیت لتا کی بہن آشا بھونسلے کے ساتھ گائے جس کی وجہ سے دونوں کی جوڑی نے خوب دھوم مچائی لیکن اچھے گانوں کے قدردانوں کو یہ تکلیف تھی کہ فلم انڈسٹری کی دو بہترین آواز ایک ساتھ کیوں نہیں۔
لیکن بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آشا بھونسلے لتا سے زیادہ ورسٹائل تھیں اور محمد رفیع کے ہم پلہ تھیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ گیت بھی ریکارڈ کروائے۔ محمد رفیع کا یہ خیال تھا کہ انھوں نے سب سے زیادہ گانے گائے ہیں ان کے حساب سے انھوں نے 25 ہزار سے زیادہ گیت گائے ہیں لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے گیتوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہے۔
محمد رفیع کے ساتھ جو ایک خوبی ہر ایک موسیقار کے لیے تھی کہ وہ کسی کے لیے بھی گا سکتے تھے۔ اور انھیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ گنیش اننتھا رمن نے لکھا ہے کہ محمد رفیع کے بعد انڈین فلم انڈسٹری سے میلوڈی یعنی 'نغمگی' کا دور بھی گزر گیا۔
محمد رفیع کے ہزاروں گیت زباں زد عام ہیں۔ سب کے اپنے اپنے پسندیدہ گیت ہیں اور وقت اور حالات کے لحاظ سے ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ رفیع کو اپنا کونسا گیت سب سے زیادہ پسند تھا۔
یہ گیت ان کے بقول 'سہانی رات ڈھل چکی، نہ جانے تم کب آوگے' تھا۔
آپ کو ان کا کون سا گیت پسند ہے؟ میری پسند تو بدلتی رہتی ہے لیکن اتنا تو کہا ہی جا سکتا ہے کہ محمد رفیع کا گایا ہوا گیت 'تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے' ان کے مداحوں سے ان کے رشتوں کو سب سے بہتر طریقے سے بیان کرتا ہے۔