Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خواتین پر تشدد کے خلاف معاہدہ، ترکی کا تذبذب

اس سال کے شروع کے سات مہینوں میں ہی اب تک ایک سو 55 ترکش خواتین کا قتل ہو چکا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ترکی میں گھریلو تشدد کے بڑھتے واقعات کے باوجود حکومت نے اس پر مبنی معاہدے سے دستبراداری کی دھمکی دی تھی، جس پر آج بدھ کو ایک اہم اجلاس ہونا تھا، تاہم ترکی نے وہ ملتوی کردیا۔
واضح رہے کہ ترکی وہ پہلا ملک تھا جو اس معاہدے کے قانونی ڈھانچے کو بنانے میں پیش پیش تھا۔
عرب نیوز کے مطابق حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے آج بدھ کو ہونے والے ایک اہم اجلاس میں اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کرنا تھا، تاہم یہ اجلاس 13 اگست تک ملتوی کردیا گیا۔
اس اجلاس کے ملتوی ہونے کی وجہ خواتین کے گروپوں کے احتجاجی مظاہرے ہیں جو وہ اپنے حقوق کے خلاف ہونے والے اقدام کے پیش نظر کر رہی ہیں۔
حکومت کے حمایتی حلقے اس معاہدے سے دستبرداری کے حق میں ہیں۔ تاہم، حیرت انگیز طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی بیٹی سمیہ اردوان، جو این جی او کی نائب سربراہ ہیں، نے اس معاہدے کی مکمل حمایت کی ہے۔
اس معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین کو مالی، معاثرتی اور معاشی طور پر بااختیار بننے میں مدد ملے گی جس سے ان کے خاندانوں کی مالی اور اخلاقی سالمیت کو خطرہ ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال کے شروع کے سات مہینوں میں ہی اب تک ایک سو 55 ترک خواتین کا قتل ہو چکا ہے۔ صرف جولائی ہی میں 32 خواتین کا قتل ہوا، جبکہ عید الاضحیٰ پر دو ایسے واقعات پیش آئے۔
گذشتہ سال چار سو 70 سے زائد خواتین کا قتل کیا گیا تھا۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ ان کا 'چڑیا کی طرح شکار' کیا گیا تھا۔
خواتین پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے باوجود وزیر زمرت سیلکک اس معاملے میں خاموش رہیں۔
خواتین کے لیے کام کرنے والے حلقوں کا کہنا ہے کہ کئی ملزم اب تک آزاد ہیں اور انہیں ٹھیک سزا بھی نہیں دی گئی 'کیونکہ مرد کورٹ کی سماعت کے دوران سوٹ پہن کر جاتے ہیں'۔

شیئر: