1982 میں لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح کئی اعتبار سے اہم تھی۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے 28 سال بعد انگلینڈ میں ٹیسٹ جیتا۔ عمران خان کی کپتانی میں ٹیم نے پہلی دفعہ ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کی۔
1954 میں اوول ٹیسٹ پاکستان کانٹے کے مقابلے کے بعد جیتا لیکن لارڈز میں اس نے حریف کو فالو آن کروایا اور 10 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس میچ میں پاکستان کا مقابلہ اصل میں اُس موسم سے تھا جس میں میچ کے آخری لمحات تک بادل پاکستان کے لیے خطرات کے بادل بن کر منڈلاتے رہے اور دلوں کو دھڑکا لگا رہا۔
لارڈز ٹیسٹ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کی۔ محسن حسن خان کو یہ میدان بہت راس آیا اور انہوں نے شاندار ڈبل سنچری بنائی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد لارڈز میں یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ دوسرے بیٹسمین تھے۔ ظہیر عباس اور منصوراختر نے نصف سنچری بنائی۔
مزید پڑھیں
-
کرکٹ اور شاعری کے میدان کا کھلاڑیNode ID: 451431
-
’یہ بابر اعظم ہیں تو کوئی بات نہیں کر رہا‘Node ID: 497026
-
’فضل محمود کی نیلی آنکھوں کے سامنے کوئی نہ ٹھہرتا تھا‘Node ID: 497156
پاکستان نے 428 رنز آٹھ کھلاڑی آﺅٹ پر اننگز ڈیکلئیر کردی۔ جواب میں انگلینڈ نے 227 رنز بنائے اور اسے فالو آن کا سامنا کرنا پڑا۔ لیگ سپنرعبدالقادر کی گیندوں نے بیٹسمینوں کو خاصا پریشان کیے رکھا۔
انگلینڈ کی ٹیم نے دوسری اننگز شروع کی تو مدثر نذر کی عمدہ بولنگ نے میچ کا پانسہ پاکستان کے حق میں پلٹ دیا۔ دلچسپ بات ہے کہ انہیں کپتان نے سرفراز نواز کا اینڈ تبدیل کرنے کے لیے جو اوور دیا اس نے میچ کا رُخ تبدیل کردیا۔
ڈیرک رینڈل کو انہوں نے بولڈ کیا۔ اسی اوور میں ایلن لیمب ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ مدثر نے اگلے اوور میں کپتان ڈیوڈ گاور کو صفر پرآﺅٹ کردیا۔ مدثر نے چھ گیندوں پر بغیر کوئی رنز دیے تین اہم بیٹسمین پویلین واپس بھیج دیے۔ انگلنیڈ کی ٹیم پریشر میں آگئی۔ 67 منٹ کریز پر رہنے کے بعد ٹیورے کے لیے اپنا کھاتہ کھولنا ممکن ہوسکا۔ بہرحال انہوں نے بوتھم کے ساتھ مل کر مزاحمت کی اور سکور آگے بڑھایا۔
یہ شراکت داری بھی مدثر نذر نے بوتھم کو آﺅٹ کرکے توڑی۔ مائیک گیٹنگ کی اہم وکٹ بھی حاصل کی۔ انگلینڈ کی ٹیم 276 رنز بنا پائی۔ مدثر نذر نے 32 رنز دے کر چھ کھلاڑی آﺅٹ کیے اور’مین ود گولڈن آرم‘ کہلائے۔

بوتھم نے بیٹنگ کے دوران گیند کی حالت میں بگاڑ کا شک ظاہر کیا لیکن امپائروں نے ان کے خدشے کو مسترد کردیا۔ ڈیوڈ گاور نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ ٹیسٹ اینڈ کاﺅنٹی کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری ڈونلڈ کار نے بھی بعد ازاں یہی کہا کہ وہ گیند کی حالت سے مطمئن تھے۔
اس اننگز میں عمران خان نے بھی نہایت عمدہ بولنگ کی لیکن صرف دو کھلاڑی آﺅٹ کرسکے۔ اس روز قسمت مدثر پر مہربان تھی اور وہ صحیح معنوں میں ان کا دن تھا۔
مدثر نذر نے چار برس قبل ایک انٹرویو میں اپنے کپتان کی بولنگ کا ذکر ان الفاظ میں کیا، ’لارڈز ٹیسٹ میں عمران خان نے بہت عمدہ سپیل کیے لیکن اسے زیادہ وکٹیں نہیں ملیں، میرے خیال میں ایسی عمدہ بولنگ شاید ہی اس نے کی ہو لیکن یہ بھی ہوتا ہے کہ کئی دفعہ بولر کو اچھی بولنگ کے باوجود زیادہ وکٹیں نہیں ملتیں۔‘
پاکستان کو جیت کے لیے 18 اووروں میں 76 رنز کا ہدف ملا۔ کھلاڑیوں کی اصل پریشانی ابرآلود موسم تھا کہ کہیں وہ جیت کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔ سکور تیزی سے کرنے کے لیے محسن حسن خان کے ساتھ جاوید میانداد کو اوپنر کے طور پر بھیجا گیا۔ یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ پاکستان نے مطلوبہ ہدف 13.1 اوور میں حاصل کرلیا۔

اس جیت سے پہلے ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں پر کیا بیت رہی تھی اور ان کے ذہنوں میں کیا چل رہا تھا، اس کے بارے میں وہاں موجود اقبال قاسم نے اپنی کتاب میں ’اقبال قاسم اور کرکٹ ‘ میں لکھا ہے، ’موسم خراب تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادل چھا گئے، بجلی کڑکنے لگی تو ہمارے دل دھڑکنے لگے فتح کے اتنے قریب ہو کر اس سے محروم ہوجانے کا خوف ہم سب کے لیے سوہان روح تھا۔
’ہمارے لڑکے لارڈز کرکٹ گراﺅنڈ کی گیلری میں کھڑے تھے۔ ایک آدھ بوند گر جاتی تو بے ساختہ منہ سے نکل جاتا ’اللہ رحم کر‘، ہمیں یہ محسوس ہوا کہ جیسے ہماری دعائیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ بادل گرجتے رہے لیکن برسے نہیں۔ جاوید میانداد نے ایڈی ہیمنگز کے تیسرے اوور میں جب چوکا لگایا تو پاکستان 10 وکٹ سے کامیابی حاصل کرچکا تھا۔
