’سڑک پر بیٹیاں محفوظ نہیں، حکومت کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے‘
’سڑک پر بیٹیاں محفوظ نہیں، حکومت کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے‘
پیر 14 ستمبر 2020 8:59
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے موٹر وے ریپ واقعے کے حوالے سے کہا ہے کہ 'ملک میں یہ تاثر پھیل گیا ہے کہ سڑک پر ہماری بیٹیاں محفوظ نہیں، حکومت کو پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔'
پیر کو عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے بعد لاہور کے سی سی پی او عمر شیخ نے پیش ہو کر کمرہ عدالت میں اپنے بیان پر معافی مانگ لی۔ کمرہ عدالت میں عمر شیخ نے کہا کہ انہیں ایسا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ موٹر وے پولیس میں بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
سی سی پی او کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں ریپ کا واقعہ ہوا، بدقسمتی سے موٹر وے کے اس حصے پر پولیس تعینات نہیں تھی۔
عدالت کی جانب سے ریپ کیس میں تفتیش اور پیش رفت کا پوچھنے پر سی سی پی او عمر شیخ نے بتایا کہ پولیس اہلکار مدد کے لیے کال آنے کے 20 منٹ بعد موقع پر پہنچ گئے تھے۔ ایک ملزم وقار الحسن خود پولیس کے سامنے پیش ہوا جس کے بیان پر عباس نامی بندہ گرفت میں آیا ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی ٹیم نے متاثرہ خاتون سے واقعے میں ملوث افراد کا حلیہ پوچھا اور اس حلیے کے 53 افراد کو حراست میں لے کر ان کا ڈی این اے کرایا، علاقے کی جیو فینسنگ بھی کی گئی۔
عدالت میں حکومت کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کا نوٹیفیکیشن بھی پیش کیا گیا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ کمیٹی وزیراعلیٰ کی ہدایت پر بنائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کمیٹیوں کی رپورٹس ٹرائل کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ سانحہ ساہیوال اور مختاراں مائی کیس میں بھی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔
لاہور کے چیف جسٹس نے کہا کہ اب جو حالات بن رہے ہیں ان میں عدالتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ سی سی پی او نے کہا کہ یہ حالات عدالتیں ہی درست کر سکتی ہیں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ایک بچی گھر سے اس اعتماد کے ساتھ نکلی کہ موٹر وے محفوظ ہے۔ خاتون اور بچے کس کرب سے گزر رہے ہوں گے کسی کو احساس ہے؟ انہوں نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے۔
لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب پولیس کے سربراہ اور سی سی پی اور لاہور سے دو دن میں تفتیش کی پیش رفت رپورٹ طلب کی ہے۔
عدالت نے پنجاب کے آئی جی سے تمام بڑی شاہراوں پر سکیورٹی اور پولیس کے گشت کا ریکارڈ بھی طلب کیا۔
قبل ازیں پیر کی صبح مقدمے کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کا موٹر وے ریپ کیس کے حوالے سے کہنا تھا کہ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن حکومت کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے جبکہ وزرا اور ایڈوائزر موقع پر جا کر تصاویر بنوا رہے ہیں۔
ہائی کورٹ میں سی سی پی او عمر شیخ کو عہدے سے ہٹانے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ’لاہور کے سی سی پی او کے بیان پر پوری کابینہ کو معافی مانگنی چاہیے۔‘
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ’کابینہ سی سی پی او کے بیان پر معافی مانگتی تو قوم کی بچیوں کو حوصلہ ہوتا لیکن پنجاب حکومت کے وزرا سی سی پی او کو بچانے میں لگ گئے۔ ‘لگتا ہے سی سی پی او لاہور وزرا کا افسر ہے۔‘
جسٹس قاسم خان نے کہا کہ ’کیا وزیر قانون کا کام تفتیش کرنا ہے۔ وزیر قانون کو تفتیش کا کیا تجربہ ہے اور وزیر قانون کس حیثیت سے کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں؟‘
لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے موٹر وے ریپ واقعہ کی تفتیش پر عدم اطمینان ظاہر کیا اور اس حوالے سے شہر کے پولیس سربراہ عمر شیخ کے بیان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’کیس کی تفتیش جاری ہے اور محکمے کا سربراہ مظلوم کو غلط کہنے پر تل جائے تو کیا ہوگا۔‘
عدالت نے پنجاب پولیس کے سربراہ اور سی سی پی او لاہور کو ہدایات جاری کرتے ہوئے سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کر دی۔