اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے 22 ستمبر تک ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مختصر فیصلہ دیا۔
نواز شریف کی گرفتاری نہ ہونے کی صورت میں عدالت مفرور قرار دینے کے حوالے سے کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
'نواز شریف کو جانے دینا ہماری غلطی تھی'Node ID: 501441
-
’نواز شریف عدالت کے سامنے سرنڈر کریں‘Node ID: 502296
-
توشہ خانہ کیس: نواز شریف اشتہاری، زرداری پر فردِ جرمNode ID: 503976
سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سابق وزیر اعظم کی درخواست سننے سے متعلق دلائل دیے۔
خواجہ حارث نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کی عدم موجودگی پر سنگین غداری کیس کا ٹرائل چلایا اور فیصلہ دیا، ملزم کے پیش نہ ہونے کے جواز پر ٹرائل نہیں روکا جا سکتا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث کی بیان کی گئی عدالتیں نظیریں مختلف حالات کی ہیں یہاں معاملہ الگ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہم نے نواز شریف کو سرنڈر کرنے کا کہا، ہمیں اب نوازشریف کی موجودہ حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف واضح طور پر اپنی درخواست میں کہہ چکے ہیں وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں جسے ہی ڈاکٹرز نے ان کو سفر کرنے کی اجازت دی وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس کسی ہسپتال کے ڈاکٹر کی نہیں بلکہ ایک کنسلٹنٹ کی ہیں، یہ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی ہسپتال میں نہیں بیٹھا ہوا۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2020/nawaz_in_court.jpg)