انڈیا کے شہر لکھنو کی ایک خصوصی عدالت نے بابری مسجد مسماری کیس کے تمام 32 ملزمان کو بری کر دیا۔
بابری مسجد کی مسماری کے بعد ان 32 ملزمان پر سی بی آئی نے مجرمانہ سازش، فساد برپا کرنے، اشتعال انگیزی، مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے جیسے الزامات پر مقدمہ درج کیا تھا۔
سی بی آئی نے کیس میں 351 گواہان اور 600 سے زیادہ دستاویزی شواہد پیش کیے۔
تاہم خصوصی عدالت کے جج جسٹس سریندر کمار یادو نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ بابری مسجد کی مسماری منصوبہ بند نہیں تھی۔
عدالت نے کہا ہے کہ سی بی آئی آڈیو ویڈیو کی صداقت کو ثابت نہیں کر سکی۔
1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے دوران تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور انڈیا کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو کر رہ گیا تھا۔
اس مقدمے کے اہم ملزمان میں بی جے پی کے بانی ممبر اور سینیئر رہنما ایل کے ایڈوانئ، سابق وزیرمرلی منوہر جوشی، سابق وزیر اوما بھارتی اور کلیان سنگھ شامل تھے۔
تاہم صحت کے مسائل کی وجہ سے تمام ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
انڈین سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نو نومبر کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد کی 277 ایکڑ متنازع زمین کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں سنایا تھا جبکہ مسلمانوں کو ایودھیا میں ہی کسی نمایاں مقام پر پانچ ایکڑ متبادل زمین دینے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ بابری مسجد کے نیچے ایک ایسا ڈھانچہ ملا ہے جو اپنی شکل و صورت میں اسلامی نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق آثار قدیمہ کے پیش کردہ شواہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اس کیس کے سب سے اہم قانونی دعویدار سنی وقف بورڈ نے نظرثانی کی اپیل دائر نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ سنی وقف بورڈ فیصلے کا احترام کرتا ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی زمین کے لیے مقدمہ 1961 میں سنی وقف بورڈ نے ایودھیا میں 277 ایکڑ اراضی کی ملکیت کے لیے کیا تھا جس پر 16ویں صدی سے بابری مسجد تعمیر تھی اور جسے 6 دسمبر 1992 میں ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں مسمار کر دیا گیا تھا۔
مسجد کی مسماری کے بعد انڈیا میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے تھے جن کے نتیجے میں لگ بھگ تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔