پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل سینیٹ کمیٹی سے منظور، صحافیوں کا احتجاج
پیکا ایکٹ میں ترامیم کا بل سینیٹ کمیٹی سے منظور، صحافیوں کا احتجاج
پیر 27 جنوری 2025 15:34
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن پلوشہ خان نے بل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
سائبر کرائم کے انسداد کے لیے پیکا ایکٹ میں متنازع ترامیم کے خلاف صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے اور پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن نے ایوان بالا کے اجلاس سے احتجاجاََ واک آوٹ کیا۔
قبل ازیں پیر کی دوپہر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے چیئرمین فیصل سلیم الرحمن کی صدارت میں اجلاس کے دوران متنازعہ پیکا ترمیمی بل 2025 کو مختصر وقت میں منظور کر لیا جس پر صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
اجلاس کے دوران صحافیوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ایک تفصیلی خط پیش کیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بل کی منظوری سے قبل تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔
خط میں واضح کیا گیا تھا کہ مجوزہ قانون میڈیا کے لیے ڈریکونین لا ثابت ہوگا اور اس سے آزاد صحافت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تاہم کمیٹی چیئرمین فیصل سلیم نے کہا کہ بل کو فوری طور پر منظور کرنا ضروری ہے اور اس پر مزید مشاورت کے لیے وقت دستیاب نہیں۔
اجلاس کے دوران اینکرز ایسوسی ایشن کے رکن شہزاد اقبال نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا کے ٹی وی چینلز کو اس بل کے دائرے میں لانا غیرمناسب ہے کیونکہ اس سے میڈیا کی خودمختاری متاثر ہوگی۔
اجلاس میں انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی وائس چیئرپرسن منیزے جہانگیر نے بھی سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کی منظوری سے ملک میں آزادی اظہار کا گلہ گھونٹ دیا جائے گا۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی بل پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس قدر جلد بازی میں اتنے اہم قانون کو منظور کرنا مناسب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس بل کو تفصیل سے پڑھا جانا چاہیے تاکہ اس پر جامع مشاورت ممکن ہو سکے۔ ’بل میں متعدد خامیاں موجود ہیں جن میں سب سے اہم فیک نیوز کی تعریف کا فقدان ہے۔‘
اس موقع پر چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ بل میڈیا کے خلاف نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے خلاف ہے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ بل پر پہلے میڈیا سے مشاورت کر لی جاتی تاہم اب وقت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے حکومت ہر ممکن اقدامات کرے گی لیکن سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت قوانین ناگزیر ہیں۔
اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن پلوشہ خان نے بل پر کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا اور خاموش رہ کر بل کی حمایت کی۔
صحافیوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن آصف بشیر چودھری نے اجلاس میں کہا کہ بل کو اس طرح منظور کرنا صحافت کی آزادی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں موجود شقیں فیئر ٹرائل کے اصولوں کے خلاف ہیں۔
حکومتی مؤقف پیش کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ یہ قانون لوگوں کے تحفظ کے لیے ہے اور حکومت نے اس میں چند ترامیم بھی متعارف کرائی ہیں تاکہ اس کا بہتر اطلاق ممکن بنایا جا سکے۔
آخر میں چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم نے اعلان کیا کہ بل کو فوری طور پر سینیٹ سے بھی منظور کروانے کی کوشش کی جائے گی۔
صحافتی تنظیموں نے اس طرح کی قانون سازی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گی اور مجوزہ قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
صحافیوں کا پیکا ترمیمی ایکٹ کے خلاف کل ملگ گیر احتجاج کا اعلان
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے)، اسلام آباد راولپنڈی یونین آف جرنلسٹ (آر آئی یو جے) اور نیشنل پریس کلب کے عہدیداروں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پیکا ترمیمی بل کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کرنے کا اعلان کیا۔
پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ اس قانون کے خلاف کل 28 جنوری کو پاکستان بھر میں احتجاج کریں گے۔
’تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جلسے، جلوس اور ریلیاں نکال کر صحافی اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت سمجھتی ہے کہ دھونس دھاندلی کے ذریعے میڈیا کو بلڈوز کر لے گی۔
’ہم نے طویل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ کل سے آزادی صحافت کی تحریک کا آغاز کریں گے۔‘
’کل مظاہروں کے بعد پاکستان کی وکلا برادری، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر شعبہ زندگی کو آزادی صحافت کی تحریک میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔‘
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں ٹریڈ یوننیز کو بھی اس تحریک میں شامل کریں گے۔