برطانیہ کے کئی علاقوں میں وائرس کے نئے کیسز آنے کے بعد پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ارڈن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے وائرس کو دوبارہ شکست دے دی ہے اور سب سے بڑے شہر میں کورونا پر قابو پانے کے بعد اب پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں۔
قبل ازیں نیوزی لینڈ نے ملک بھر میں سخت لاک ڈاؤن کرنے کے بعد مئی میں وائرس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد 102 دنوں تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
تاہم اگست میں نیوزی لینڈ کے 15 لاکھ آبادی والی شہر آکلینڈ میں کورونا کے نئے کیسز سامنے آںے پر تین ہفتوں کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب برطانیہ میں سرکاری طور پر کورونا کے مریضوں کی تعداد پانچ لاکھ سے بڑھ جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔
برطانیہ براعظم یورپ میں کورونا سے متاثرہ ملکوں میں سب سے آگے ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک نے وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے ’بہت سخت موسم سرما‘ گزارا ہے تاہم امید ظاہر کی کہ کرسمس تک صورتحال بہتر ہو جائے گی۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اتوار کو برطانیہ میں 22 ہزار 961 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جس کے لیے اعداد وشمار جاری کرنے میں تکنیکی مسئلے کو وجہ بتایا گیا۔
حکام نے کہا ہے کہ ستمبر کے مہینے میں کئی کیسز سرکاری اعداد وشمار کا حصہ بننے سے رہ گئے تھے۔
برطانیہ میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد 42 ہزار سے بڑھ چکی ہے جبکہ اب تک پانچ لاکھ دو ہزار 978 شہریوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔
برطانوی محکمہ صحت نے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسین پروگرام پر کام جاری رکھا ہے اور حکام کا کہنا ہے کہ ویکسین کی فراہمی ترجیحی طور پر 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو ہوگی۔
برطانیہ کی ویکسین ٹاسک فورس کے چیئرمین کیٹ بنگم نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ ’اٹھارہ برس سے کم عمر کے افراد کے لیے ویکسین نہیں ہوگی۔ یہ بڑی عمر کے افراد کی ویکسین ہے جو 50 برس سے زیادہ عمر کے افراد اور ہیلتھ ورکرز کو ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔‘