بینائی کھو کر خواتین کو بچانے والا ڈرائیور
منگل 13 اکتوبر 2020 13:37
جاسرہ علی -اردو نیوز، اسلام آباد
پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات تو آئے روز رپورٹ ہوتے ہیں لیکن معاشرے میں ایسے مردوں کی بھی کمی نہیں جو اپنی پرواہ کیے بغیر خواتین کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
یہ کہانی بھی ایسے ہی ایک کردار کی ہے جس نے اپنی پرواہ کیے بغیر خواتین کو بچایا جس کے نتیجے میں انہیں اپنی دونوں آنکھوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔
گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر ظفر بھائی کے نام سے ایک رکشہ ڈرائیور کی تصویر شئیر کی جا رہی ہے جس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے دو خواتین کو ہراساں کرنے والے افراد سے بچایا۔
یہ واقعہ پشاور میں حاجی کیمپ اور گل بہار کی درمیانی سڑک پر پیش آیا۔ خواتین سواریوں کا پیچھا کرنے والے موٹر سائیکل سواروں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے جب تنگ کرنے کے باوجود فقیر حسین نے رکشہ نہیں روکا تو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر تیزاب پھینک دیا جس کی نتیجے میں ان کا جسم آنکھیں اور چہرہ بری طرح جل گیا۔
اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے ترجمان پشاور پولیس محمد الیاس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ واقعہ گیارہ ماہ پرانہ ہے اور اس واقعے سے متعلق فقیر حسین سے رابطہ کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایف آئی آر رجسٹر کروانے سے انکار کر دیا تھا۔‘
فیس بک پر شئیر ہونے والی ایک ویڈیو میں فقیر حسین کا کہنا ہے کہ ’ایف آئی ار نہ رجسڑ کروانے کی یہی وجہ ہے کہ میں تیزاب پھیکنے والے افراد کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا کیونکہ انہوں نے ہیلمٹ پہن رکھے تھے‘
فقیر حسین ان دنوں پرائم ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹر میر علی شاہ کے پاس زیرعلاج ہیں اور ان کی ایک انکھ کی سرجری مکمل ہو چکی ہے۔اس واقعے کے سوشل میڈیا پر شئیر ہونے کی وجہ پشارو یونیورسٹی میں زیر تعلیم عامر حمزہ کے ٹوئٹر اکاونٹ سے کی گئی ایک ٹویٹ تھی جس میں حمزہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا کے ذریعے فقیر حسین کے علاج کے لیے امداد کی اپیل کی۔
اس حوالے سے اردونیوز سے بات کرتے ہوئے عامر حمزہ نے بتایا کہ ’ایم بی بی ایس کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ان کا اکثر پشاور پرائم ہسپتال میں آنا جانا لگا رہتا ہے اس دوران ان کی ملاقات فقیر حسین سے ہوئی ان کی کہانی سننے کے بعد حمزہ نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ان کے علاج کے لیے درکار مزید رقم کا انتظام کرنے کا فیصلہ کیا اس کے لیے انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کا استعمال کیا۔‘
سماجی کارکن مہوش اعجاز نے بھی فقیر حسین کے لیے امدادی رقم اکٹھی کرنے والے طلبا کی ٹویٹ شئیر کرتے ہوئے اپنے فالورز اور سوشل میڈیا صارفین سے نہ صرف ان کی مدد کی اپیل کی بلکہ یہ درخواست بھی کی کہ ایسے گمنام ہیروز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مہوش کا کہنا تھا کہ 'جب کوئی کمزور کسی کمزور کی مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے تو ہم سب لوگوں کا فرض بنتا ہے ان کی حوصلہ افزائی کریں اگر دیکھا جائے تو ایک عام رکشہ چلانے والا کتنا کما لیتا ہوگا اس کے تین بچے ہیں پھر بھی اس نے مصیبت کے وقت دوسرے کی مدد کو ترجیح دی جبکہ آج کل کے حالات میں لوگ ایسے معاملات سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں'
سوشل میڈیا پر مدد مانگنے والوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اکثر لوگ مدد اور ری ٹویٹ کے لیے میسجز کرتے ہیں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے طور پر مدد کر بھی رہے ہوتے ہیں۔مگراس کی تشہیر نہیں کرتے اس واقعے کو شئیر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم ایسے گمنام ہیروز کو حوصلہ افزائی کرسکیں‘
کیا سارے مرد برے ہوتے ہیں ؟
معاشرہ لوگوں سے مل کر بنتا ہے اس میں دونوں جنس موجود ہوتے ہیں۔ جب بات برائی یا اچھائی کی آتی ہے تو یہ بات ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ برے مرد اور بری خواتین ، اچھے مرد اور اچھی خواتین دونوں قسم کے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ چند ملتے جلتے واقعات کی وجہ سے کسی ایک جنس پر اچھا یا برا ہونا کا ٹیگ لگا دینا درست نہیں۔
مہوش اعجاز نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ’فیمنزم اور ایکٹیوزیم کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی ایک انفرادی شخص کی وجہ سے اس جنس سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو برا یا اچھا کہیں ، میرے لیے فیمنزم کا مطلب ہی یہی ہے کہ مرد اور عورت میں تفریق پیدا کیے بغیر غلط کو برا کہا جائے اور صحیح کا ساتھ دیاجائے، بری چیز کے لیے ہمشیہ آواز اٹھائیں چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین آ پ کے دوست ہوں یا دشمن !