بنگلہ دیش کی حکومت نے ملک میں جنسی حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے ریپ کیس کے مجرموں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش میں احتجاج کا سلسلہ سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو کے بعد سے جاری ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند افراد ایک خاتون کپڑے پھاڑ کر کے اس پر حملہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
ڈھاکہ میں وبا سے بچنے کے لیے لوگوں کی سائیکل پر سواریNode ID: 487031
-
کورونا: بنگلہ دیشی شہریوں کے بہتر مستقبل کے خواب 'چکنا چُور'Node ID: 499916
-
بنگلہ دیش سے افرادی قوت منگوانے کے لیے ضوابط مقررNode ID: 504671
ڈھاکہ میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتوں کا شکار ہونے والے بہت کم افراد کو انصاف ملتا ہے۔
ڈھاکہ میں ایک اجلاس کے دوران سزائے موت کی منظوری سے قبل وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو بھی پارٹی میں اندرونی دباؤ اور تنقید کا سامنا تھا کہ انہوں نے اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔
انصاف کے وزیر انیس الحق نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل سے صدر ملک میں اس قانون کو نافذ کر دیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے بنگلہ دیش میں ریپ کے مجرموں کے لیے عمر قید کی سزا مقرر تھی۔
جنسی زیادتی کے واقعات پر گذشتہ ایک ماہ سے قومی سطح پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے جب حکمران جماعت کے طلبہ ونگ کے کچھ افراد کو گرفتار کر کے ان پر اجتماعی زیادتی کا مقدمہ درج کیا گیا۔
ڈھاکہ سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرین ریپ کے مجرموں کے لیے سخت سزاؤں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کچھ مظاہرین شیخ حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
مون سون کی بارشوں کے باوجود پیر کو مرکزی ڈھاکہ میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
مظاہرین نے حال ہی میں طلبہ رہنماؤں کی گرفتاریوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ احتجاجی مظاہروں کو دبانے کی کوششوں کی جا رہی ہے۔
مقامی انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق بنگلہ دیش میں 2013 سے اب تک 23 افراد کو پھانسی دی گئی ہے جبکہ ایک ہزار 718 افراد پھانسی کے منتظر ہیں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں