Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی ریپ کیس: اٹھو نربھیا! انصاف ہُوا چاہتا ہے

طالبہ نربھیا کے گینگ ریپ اور قتل نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
آپ نے کبھی خود کو لڑکی سمجھا ہے۔ دھان پان سی، چلیں ایک سیکنڈ کے لیے تصور کر لیں کہ ایسا ہی ہے۔ آپ رات کے وقت ایک ایسی بس میں سفر کر رہے ہیں جس میں چار پانچ بدقماش قسم کے لڑکے موجود ہیں۔ ان کی ہوس بھری نظریں بلیڈز کی طرح جسم میں اترتی محسوس ہو رہی ہیں۔ ان کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے آپ ڈرائیور سے بس روکنے کا کہتے ہیں تو وہ قہقہہ لگاتا ہوا رفتار مزید بڑھا دیتا ہے۔ اسی لمحے چاروں آپ کی طرف بڑھتے ہیں۔ شہر ابھی جاگ رہا ہے، چوراہوں پر پولیس اہلکار بھی نظر آتے ہیں لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ بس میں کیا ہو رہا ہے۔ زمین کے پھٹنے یا آسمان کے گرنے کی امید کا کوئی فائدہ نہیں، ایسا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔
آہ ۔۔۔ انسانیت حیوانیت کا ننگا ناچ ناچنے والوں کے پیروں تلے روندی جا چکی ہے۔۔۔ ابھی آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کی کرچیاں کس کس کونے تک بکھری ہیں کہ یکدم ہاتھ پائوں سے پکڑ کر چلتی بس سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ کچلی روح، احساسِ ذلت اور زخموں میں اٹھتی ٹیسوں کو ذہن سہار نہیں پا رہا اور اندھیروں میں ڈوب چلا ہے اس خیال کو ساتھ لیے کہ کاش آپ اتنے بے بس نہ ہوتے۔

کب، کہاں، کیسے

نہ یہ فلم کی کہانی ہے اور نہ کوئی افسانہ، 16 دسمبر 2012 تک یہ لڑکی نربھیا سانس لیتی تھی، دہلی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ شاید یہ اس کی قوت ارادی تھی یا پھر قدرت کا رحم، کہ اسے ایک بار ہوش آیا اور پولیس کو اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں بتا دیا اس کے بعد آنکھیں کیا بند ہوئیں کہ پورے پورے ملک کی آنکھیں کھل گئیں۔

جب ملزمان کی گرفتاری کے لیے لوگ باہر نکلے

ہر طرف کھلبلی مچ گئی۔ سیاست دانوں پر دباؤ بڑھا۔ پولیس حرکت میں آئی۔ ہر کسی کی ہمدردی نربھیا کے ساتھ تھی، ملک بھر میں مجرموں کو پکڑنے کے لیے مظاہرے شروع ہوئے۔
پولیس نے آغاز وہیں سے کیا جہاں لڑکی کو پھینکا گیا اور ان لوگوں کے بیان لیے جنہوں نے اسے ہسپتال پہنچایا اور یہ پتہ چل گیا کہ اسے بس سے پھینکا گیا اس روٹ پر تقریباً 400 بسیں چلتی تھیں، سب کو چیک کرنا خاصا مشکل کام تھا۔

تیز ترین کیس

اس کو دہلی کا تیز ترین کیس بھی کہا جاتا ہے۔ ڈی سی پی آفیسر چاہیا شرما نے اسے پانچ روز میں مکمل کیا۔ تمام بسوں کو چیک کیا، ایک بس میں سے کچھ شواہد ملے تو ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا جس نے ساتھیوں کے نام بتا دیے اور چھ افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے ایک کو نابالغ ہونے پر رہا کر دیا گیا جبکہ مرکزی ملزم نے سزا کے خوف سے ٹرائل شروع ہونے سے قبل ہی خودکشی کر لی۔

ملزمان کے وکلا نے ٹرائل کے دوران دفاع کیا اور فیصلے کو عمل درآمد بھی عارضی طور پر رکوایا۔ فوٹو: اے ایف پی

میڈیا اور عوام کا کردار

عام طور پر ایسے کیس جلد ہی کوئی دوسرا ایشو سامنے آنے پر پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور پھر کسی کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کب کس نے دباؤ ڈالا۔ ملزم کی ضمانت ہوئی۔ کوئی معطل ہونے والا افسر بحال ہوا اور کب فریقین میں راضی نامہ تاہم انڈین میڈیا اور عوام کو اس بات کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے اس کیس کو کبھی دبنے نہیں دیا۔ مجرموں کے خلاف غم و غصہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا۔

عدالت، تہاڑ جیل اور ویڈیو کانفرنسنگ

 آخری سماعت میں پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا گیا تھا۔ 22 جنوری کو سزا پر عملدرامد ہونا تھا، تاہم اس کے بعد صدر کو کی جانے والی رحم کی اپیل کے باعث چند روز مزید دیے گئے۔ اس سے قبل ہونے والی سماعت میں مجرموں کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعے براہ راست لیا گیا تھا۔ عدالت نے دونوں طرف کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد ملزموں کو ریویو پٹیشن دائر کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیے تھے۔

دہلی کرائم

اس واقعے پر دہلی کرائم نے نام سے ایک نیٹ فلیکس سیریز بھی بنائی گئی جس میں شیفالی شاہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اسے پوری دنیا میں ریلیز کیا گیا۔رائٹر اور ڈائریکٹر رچی مہتا تھے۔ اس سیریز میں کیس کے مختلف مراحل اور تفتیش کے حوالے سے مناظر فلمبند کیے گئے۔ اس کے ذریعے انڈیا دنیا کو یہ پیغام دینے میں بھی کامیاب ہوا ہے کہ سماجی برائیوں کو چھوٹا موٹا کچرہ سمجھ کر قالین کے نیچے چھپانے، حالتِ انکار میں رہنے کے بجائے انہیں تسلیم کرنے، سامنا کرنے اور ان سے بچاؤ کا راستہ نکالنا بہت ضروری ہے۔

نربھیا ریپ اور قتل کیس میں انڈین عدالت پر تیز ترین ٹرائل کے لیے مظاہروں کے ذریعے عوامی دباؤ آیا۔ فوٹو: اے ایف پی

انڈیا اور ریپ

انڈیا میں خواتین کے ساتھ زیادتی بہت بڑا مسئلہ ہے حالیہ برسوں میں ان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے سال 2018 میں33 ہزار 356 واقعات ہوئے جبکہ سال 2017 میں یہ تعداد 32 ہزار 559 تھی۔
دوسری طرف سال 2018 میں ایسے جرائم میں ملوث افراد میں سے صرف 27 فیصد کو سزا مل سکی، جبکہ 2017 میں یہ شرح 32 فیصد تھی۔
دسمبر 2019 میں اترپردیش میں خاتون کو ملزمان نے اس وقت جلا دیا جب وہ اپنے ریپ کیس کی سماعت کے لیے عدالت جا رہی تھی۔
اسی طرح ایک خاتون ڈاکٹر کو ریپ کا نشانہ بنا کر جلایا گیا، اس واقعے کے ملزموں کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

فیصلے پر عمل درآمد کا دن

20 مارچ فیصلے پر عمل درآمد کا دن ہے، ڈیتھ سیلز میں موت کی سی خاموشی ہے، قیدی رات بھر سو نہیں پائے۔ انہیں بار بار اپنا جرم کچوکے لگاتا رہتا۔ علی الصبح جیل حکام نے ان کو ایک ایک کر کے نکالا اور اس تختے کی طرف بڑھایا جا رہا ہے جس کے عین اوپر پھندہ جھول رہا ہے۔

نربھیا کے والدین اپنے وکیل کے ساتھ انڈین سپریم کورٹ کے سامنے۔ فوٹو بشکریہ: پریس ٹرسٹ آف انڈیا

اب پھر سے وقت ہے چشم تصور کھولنے کا، آپ کو اس لمحے تختہ دار کے آس پاس کسی کی موجودگی کا احساس نہیں ہو رہا؟ کوئی ہیولا ہے شاید کسی لڑکی کا، جس کے کپڑے تار تار اور جسم زخموں سے چور چور ہے، الجھے بال ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر شدید کرب کے آثار ہیں۔ وہ لیور کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی ہے کہ جیسے ہی اس کو کھینچا جائے گا اس کی تکالیف دور ہو جائیں گی۔
انڈیا کے ہی شاعر ساحر لدھیانوی نے کئی دہائیاں قبل اس کریہہ عمل کا نوحہ لکھا تھا جو آج کا احاطہ بھی کرتا ہے۔
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں، یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مر جائے تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں

شیئر:

متعلقہ خبریں