بلوچستان کے ضلع قلات کے رہائشی بیبرگ بلوچ معمول کی زندگی گزار رہے تھے لیکن 2 مارچ 2010 کو دہشتگردی کے ایک واقعے نے ان کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔ اس واقعے نے نہ صرف انہیں زندگی بھر کے لیے جسمانی طور پر معذور کردیا بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر کیا۔
بم دھماکے میں زخمی ہوئے تو بستر کے ساتھ لگ گئے۔ بستر سے ویل چیئر تک کاسفر تین سال میں طے کیا مگر دونوں ٹانگوں سے معذور ہونے کے باوجود معذوری اور مایوسی کی زندگی گزارنے کے بجائے نہ صرف خود پاؤں پر کھڑے ہونے کی جدوجہد شروع کردی بلکہ دوسروں کی زندگی میں بھی بہتری لانے کا عزم لیےایک نئی زندگی کا آغاز کردیا۔
الیکٹریکل انجینیئرنگ کی تعلیم ادھوری رہ گئی تو حیاتیات کے شعبے کا انتخاب کیا اور اب اس میں بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
'پولیو کے خاتمے کا عزم لیے والدہ کے ساتھ نکلا ہوں'Node ID: 506701
-
’ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں‘Node ID: 509171
-
بینائی کھو کر خواتین کو بچانے والا ڈرائیورNode ID: 510896
بیبرگ بلوچ کے بقول وہ 2010 میں خضدار میں واقع بلوچستان یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں الیکٹریکل اانجینیئرنگ کے تیسرے سال کے طالبعلم تھے، جب 2 مارچ کو بلوچ یوم ثقافت کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب پر دہشتگردوں نےحملہ کر دیا۔
’دہشتگردوں نے یکے بعد دیگرے تین دستی بم پھینکے جو طلبہ کےدرمیان گرکر پھٹ گئے۔ بہت سے طلبہ زخمی ہوگئے، دو کی موت واقع ہوئی۔ مجھےبھی گہرے زخم لگے۔ ریڑھ کی ہڈی پر لگنے والے زخم کی وجہ سے میں میرا چلنا پھرنا بند ہوگیا اور میں ویل چیئر پر آگیا۔‘
اپنی معذوری کی کہانی سناتے ہوئے 28 سالہ بیبرگ کے چہرے پر لمحہ بھر بھی کوئی افسردگی یا تلخی دکھائی نہیں دی۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے انہوں نے بتایا کہ ’اچانک ہی پوری زندگی بدل گئی۔ میں ایک فعال زندگی گزار رہا تھا، کرکٹ اور فٹبال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ یونیورسٹی کے سالانہ مقابلوں میں دو مرتبہ بہترین کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کیا لیکن اس سانحے کے بعد میں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور کروٹ بدلنے کے لیے بھی کسی کی مدد کا محتاج بن گیا۔‘
بیبرگ نے بتایا کہ وہ زخمی ہونے کے بعد تین مہینے کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔
’تین سال تک صرف بستر پر پڑا رہا۔ کروٹ بھی خود نہیں بدل سکتا تھا۔ اس دوران میں ذہنی طور پربھی مفلوج ہوگیا۔ ایک طرح سے ساری صلاحیتیں ختم ہوگئی تھیں، مجھے لگا کہ زندگی بالکل ختم ہوگئی ہے، اب میرے جینے کا کوئی مقصد ہی نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس مشکل وقت کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جب انہوں نے اپنی زندگی بہتر کرنے کا فیصلہ کیا۔
’میں نے سوچا کہ اب میرے ساتھ اس سے اور کیا برا ہوسکتا ہے، تو پھر میں نے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ میرے والد اور چھوٹے بھائی نے مجھے کافی حوصلہ دیا۔ دوستوں نے بھی بہت مدد کی۔‘
معذوری کو شکست دینے کی کہانی بیان کرتے ہوئے بیبرگ نے کہا کہ ’کسی بھی تندرست شخص کے لیے معذوری کی ابتداء کا مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے۔ اس میں قوت ارادی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ پہلے کی زندگی اور ویل چیئر کی زندگی میں کافی فرق ہے، آپ مکمل تبدیل ہوجاتے ہیں۔ آپ کے سوچنے کا انداز، رہن سہن، دیکھنے کا نظریہ سب کچھ تبدیل ہوجاتا ہے۔ لیکن میرے والدین بھائی اور دوستوں نے کبھی یہ احساس نہیں دلایا کہ میں معذور ہوں یا کچھ کرنہیں سکتا۔‘
بیبرگ نے بتایا کہ ’شروع میں کافی زیادہ مشکلات پیش آئیں۔ علاج پر لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے اس میں بھی حکومت نے کوئی مدد نہیں کی۔ تین چار سال فزیو تھراپی کرائی، ری ہیبلی ٹیشن سینٹرز جاتا رہا تب میں اس قابل ہوا کہ بستر سے ویل چیئر پر منتقل ہوسکوں۔ پھر میں دوبارہ خضدار یونیورسٹی گیا اور انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کرنا چاہی تو ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے کلاس رومز لیبارٹریوں اور واش رومز تک جانا آسان نہیں تھا۔ بدقسمتی سے ایک مہینے بعد ہی مجھے یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔‘
بیبرگ کے مطابق حادثے نے ان کے سوچنے کا انداز تبدیل کردیا تھا۔
’میں نے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس وقت میں معذوروں کے مسائل پر مختلف غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کررہا ہوں۔ کوئٹہ آن لائن کے نام سے ہم دوستوں کی ایک سماجی تنظیم ہے جس کے ذریعے ہم شجر کاری، خون کے عطیات جمع کرنے اور ٹریفک قوانین کی آگاہی جیسے سماجی کام کرتے ہیں۔ ہم کلین کوئٹہ کے نام سے صفائی مہم بھی چلاتے ہیں۔ میں ڈس ایبل کرکٹ ٹیم کا کپتان ہوں۔ حال ہی میں ہم نے پشاور سپیشل اولمپلکس مقابلوں میں حصہ لیا اور چار گولڈ میڈلز اور چھ سلور میڈلز جیتے۔‘
زندگی ایک بار پھر متحرک ہوئی تو 9 سال کے وقفے سے بیبرگ نے اپنا تعلیمی سفربھی دوبارہ شروع کردیا۔
’دوستوں کے مشورے پر انجینیئرنگ چھوڑ کر سائنس کی طرف آگیا اور 2019 میں بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی میں داخلہ لے لیا۔ اب میرا تیسرا سمیسٹر چل رہا ہے۔ میں روزانہ صبح نو سے چار بجے تک باقاعدگی سے کلاسز لیتا ہوں۔‘
یبرگ بلوچ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایم فل اور پی ایچ ڈی بھی کرنا چاہتے ہیں۔
’میں پی ایچ ڈی کے بعد کوشش کروں گا کہ تحقیق کے شعبے میں چلا جاؤں۔ اگر وہ نہ ہوسکا تو پھر میں انشاءاللہ استاد بن کر (نوجوان نسل کو) پڑھاؤں گا۔‘
بیبرگ بلوچ کہتے ہیں کہ کوئی محرومی کوئی کمزوری انسان کے حوصلے پست نہیں کرسکتی، انسان کی سب سے بڑی لڑائی خود سے ہی ہوتی ہے۔
’جب آپ نے اپنے آپ سےلڑائی جیت لی تو آپ کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ جتنا بھی مشکل کام ہو، زندگی جتنی بھی مشکل ہو آپ نے یہ طے کر لیا اوریہ عزم کر لیا کہ میں کرسکتا ہوں، میں کروں گا، تو پھر آپ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں، بڑی بڑی مشکلات بھی آسان ہوجاتی ہیں۔‘
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں