پاکستانی خاتون وکیل اور سماجی کارکن میری جیمز گل کو سینیٹری ورکرز کے لیے خدمات پر بین الاقوامی ایوارڈ 'اینا لندھ پرائز' سے نوازا گیا ہے۔ سوئیڈن کے ادارے اینا لندھ میموریل فنڈ کی جانب سے یہ انعام ہر سال ان افراد کی خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے جو کسی قسم کے امتیاز، ناانصافی، بے حسی کے خلاف اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
سابق ممبر قومی اسمبلی میری جیمز گل کو یہ ایوارڈ سینیٹری ورکرز کے لیے چلائی جانے والی مہم 'سوئپرز آر سپر ہیروز' کے لیے دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹر کو خراج تحسینNode ID: 471416
-
لائق تحسین، ’یہ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں‘Node ID: 479671
-
ڈیانا ایوارڈ: ’یہ پاکستان کے لیے اعزاز ہے‘Node ID: 489531
اینا لندھ میموریل فنڈ کے بیان کے مطابق 'بطور وکیل اور سماجی کارکن میری جیمز گل نے اپنی مہم 'سوئپرز آر سوپر ہیروز' کے ذریعے خاکروبوں کے حقوق، ان کے طرز زندگی اور صحت کے حوالے سے بات کی۔ میری گل کا کام کمزور طبقے کے انسانوں کے حقوق کے حوالے سے ہے جو کہ ان اقدار سے ہم آہنگ ہے جن کے لیے اینا لندھ بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ اس لیے ہم اینا لندھ پرائز 2020 میری جیمز گل کو دینے میں بہت فخر محسوس کر رہے ہیں۔'
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی کارکن میری جیمز نے کہا کہ وہ آج بہت خوش ہیں کہ ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔
'مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ میری مہم کی وجہ سے ان گمنام ہیروز کو شناخت ملی ہے۔ یہ ایوارڈ میرا ہی نہیں بلکہ ان سپر ہیروز کا ہے۔'
میری جیمز گل سے جب ہم نے پوچھا کہ انہیں اس مہم کو چلانے کا خیال کیسے آیا تو انہوں نے بتایا کہ 'میں 10 سال سے انسانی حقوق کے لیے کام کر رہی ہوں لیکن جب مجھے محسوس ہوا کہ خاکروبوں کے حقوق اور ان کی مشکلات پر کبھی بات نہیں کی گئی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں معاشرے میں نظرانداز کیے گئے اس طبقے کے لیے آواز اٹھاؤں۔'
میری گل نے خاکروبوں کے حوالے سے لوگوں کے منفی رویوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمارے یہاں سینیٹری ورکرز کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ان کے بغیر ہم شاید سروائیو بھی نہ کرسکیں۔ یہ اگر ایک دن کام نہ کریں تو ہماری سڑکوں کا کیا حال ہو یہ شاید تصور کرنا بھی محال ہے۔'
میری گل نے بتایا کہ 'ہمارے ابتدائی طور پر دو بڑے مقاصد تھے جن میں سے ایک یہ کہ خاکروبوں کو وہ عزت و احترام ملے جس کے وہ حقدار ہیں، ان کے کام کو مانا جائے دوسرا یہ کہ ان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس کے بعد ہم انہیں معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے اقدامات پر زور دیں گے۔'
![](/sites/default/files/pictures/August/36516/2020/109078052_719238088867710_1776684611723478237_o.jpg)
اس سوال کے جواب میں کہ ان دو مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیابی ملی ہے، میری نے بتایا کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ ہمارا بنیادی مقصد بہت حد تک پورا ہو گیا ہے کیونکہ پہلے تو اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی، لوگ ان کے حوالے سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے تھے مگر اب سوچ بدل رہی ہے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے میری اس کیمپین کو کافی سراہا اور میری اس مہم سے لوگ اس طبقے کی طرف متوجہ ہوئے۔ اب لوگ ان کا احساس کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ان کا وجود کتنا اہم ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے۔'
میری جیمز گل نے بتایا کہ صرف لوگوں کی ہی نہیں بلکہ خاکروبوں کی ذہن سازی بھی بہت ضروری تھی۔ 'اس پیشے سے جڑے لوگ دوسروں کو اپنے کام کے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتے تھے لیکن ہم نے ان کی کاؤنسلنگ کی کہ یہ کوئی شرمندگی کا کام نہیں، ہم نے انہیں بتایا کہ جب تک آپ اس پیشے کو کم تر سمجھیں گے تو لوگ بھی آپ کو حقیر جانیں گے۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ہم نے خاکروبوں کو پُراعتماد بنانے کے لیے dignity award کے نام سے ایک تقریب منعقد کی جس میں اس پیشے سے 25 سال سے وابستہ افراد میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے گئے۔'
![](/sites/default/files/pictures/August/36516/2020/573158df9a573.jpg)