Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں‘

قیمتی پتھر کو سنسکرت میں رتنا (रत्न) اور ہندی میں ’رتن‘ کہتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا
سارے پتھر نہیں ہوتے ہیں ملامت کا نشاں 
وہ بھی پتھر ہے جو منزل کا نشاں دیتا ہے 
مثبت سوچ کا ترجمان یہ شعر بجنور(انڈیا) کے پرویز اختر کا ہے۔ شاعر نے ملامت سے منزل کا موازنہ کرکے بے مول پتھر کو اَن مول ثابت کر دیا ہے۔ ہندی کی رعایت سے اردو میں پتھر سے متعلق بہتیری ترکیبیں اور درجنوں محاورے رائج ہیں۔ کسی کو بے رحم، بے حس یا کٹھور کہنا ہو تو ’پتھر دل‘ پکارتے ہیں۔ ہیبت یا حیرت سے پھٹی آنکھوں کو ’آنکھیں پتھرانا‘ کہتے ہیں۔ پھر ’پتھر کو جونک لگانا‘ اور’پتھر ہو جانا‘ جیسے محاروے اسی بے حسی کے ترجمان ہیں۔ 
’پتھر‘ کو فارسی میں ’سنگ‘ اورعربی میں’حجر‘ کہتے ہیں۔ ’حجراسود‘ (سیاہ پتھر) کا لفظ اسی ’حجر‘ سے مرکب ہے، جسے سادہ منش احتراماً ’حجر اسود کا پتھر‘ کہتے ہیں۔  
تاریخ عرب میں ’حجر‘ نامی شہر اوراصحاب الحجر (پتھر والوں) کا ذکر ملتا ہے، مؤرخین کے مطابق اصحاب الحجر نے چٹانوں کو تراش کرعالی شان محلات اور مکانات بنائے تھے۔ یوں یہ سارا شہر ہی پتھر (حجر) کا تھا۔ اس کے آثار’مدائن صالح / Madain Saleh‘ میں آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔   
پتھرکا ایک شہرملک اُردن میں بھی ہے۔ آثارقدیمہ میں شامل اس تاریخی شہرکا نام ’پیٹرا/Petra‘ ہے۔ 
اس ’پیٹرا‘ کی اصل لفظ ’پیترا/Πέτρα‘ ہے، جو یونانی میں ’پتھر/چٹان‘ کو کہتے ہیں۔ یوں اس شہر کو ’اسم بمسمیٰ‘ کہہ سکتے ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے ’صبا اکرام‘ کا شعر ملاحظہ کریں پھر آگے بڑھتے ہیں: 
ان پتھروں کے شہر میں دل کا گزر کہاں  
لے جائیں ہم اٹھا کے یہ شیشے کا گھر کہاں 
ماہرین اور مؤرخین آریاؤں اور یونانیوں کو نسلی اور لسانی طورپر ہم قبیلہ قراردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنسکرت اوریونانی سمیت اس شاخ کی بہت سی زبانوں کے بیشتر الفاظ کے آخرمیں ’الف‘ کی واضح یا غیر واضح آواز آتی ہے۔ مثلاً ہندی کا ’رام‘ سنسکرت میں ’راما‘ اورانگریزی کا کیمل (Camel) یونانی میں کمِیلا(Kamíla) ہے۔ 

اردن کے قدیمی شہر پیٹرا کے معنی پتھریا چٹان کے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اس تمہید کے ساتھ اب آپ یونانی کے ’پیترا‘ کو ’پیتر‘ پڑھیں تو اسے ’پتھر‘ کا ہم معنی و ہم آواز پائیں گے۔ پتھر کے معنی کے ساتھ ’پیترا‘ لاطینی میں پیتروسُس(petrosus) ہوا اورقدیم فرانسیسی میں پیتروس (petros) کہلایا۔ اس کے علاوہ یہ لفظ ’پیدرا/ pedra‘ اور’پیٹرا/petra‘ کی صورت میں کئی یورپی زبانوں میں مستعمل ہے۔  
پتھرکی ایک صورت ’بٹّا‘ ہے، مگر اردو میں اس کا اطلاق و استعمال پتھر کے مقابلے میں محدود ہے۔ معروف اہل لغات کے مطابق ’بٹّا‘ کی تعریف میں ’سل پر مسالا پیسنے کا پتھر، کوئی سخت چیز توڑنے کا پتھر، کھرل کی موسلی، ہاون کا دستہ اور تولنے کا ’باٹ‘ شامل ہے۔  
’باٹ‘ جس کی دیگر صورتیں ’بانٹ‘ اور’بٹ‘ بھی ہیں اصلاً ’بٹّا‘ ہی سے متعلق ہے۔ جو اس بات کا اعلان ہے کہ ’باٹ‘ ابتدا میں پتھر کا تھا، اس نے بتدریج لوہے اور دوسری دھاتوں کی صورت اختیار کی۔ ’باٹ‘ کی رعایت سے انور مسعود صاحب کا خوبصورت شعر یاد آگیا: 
یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر  
برف کے باٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا  
اردو’کا بٹّا‘ پتھر کےعام معنی کے ساتھ ملیشیا کی ’ملے‘  زبان میں ’بٹو‘ اور فلپائنی میں ’باٹو/bato‘ کی صورت میں رائج ہے، جب کہ صوتی تبادل کے نتیجے میں ’بٹّا‘  پنجابی میں’وٹّا‘ پکارا جاتا ہے۔

بادشاہ جلال الدین اکبر کے دربار میں باکمال وزرا ’اکبری نورتن‘ کہلائے۔ فوٹو: پنٹرسٹ

جیسے پتھر سے پتھری ہے، ایسے ہی ’وٹّا‘ سے ’وٹّی‘ ہے۔ اس ’وٹّی‘ کو آپ اردو ترکیب ’کَسَوٹی‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ ’کَسَوٹی‘ اس سیاہ پتھر کو کہتے ہیں جس پر سونا یا چاندی گھس کر کھرا کھوٹا پرکھتے ہیں۔ بقول مرزا فخر الدین فخر: 
صراف کسوٹی پہ گھسا کرتے ہیں زر کو 
ہم وہ ہیں جو آنکھوں سے پرکھتے ہیں بشر کو 
پتھر سرِراہ پڑا ہو تو ٹھوکروں کی زد میں ہوتا ہے اورقیمتی ہو تو تاج میں جگہ پاتا ہے۔ قیمتی پتھرکو سنسکرت میں رتنا (रत्न) اور ہندی میں ’رتن‘ کہتے ہیں۔ نو(9) مختلف قیمتی پتھروں کا مجموع ’نورتن‘ کہلاتا ہے۔ اس مجموعے میں درج ذیل قیمتی پتھر شمار کیے گئے ہیں: موتی، ہیرا، زمرد، لال، نیلم، پکھراج، مونگا، لاجورد اور یاقوت۔
اب ’نورتن‘ کی جھلک نظیر اکبر آبادی کے شعر میں ملاحظہ کریں: 
یہ برق ابر میں دیکھے سے یاد آتی ہے 
جھلک کسی کے دوپٹے میں نورتن کی سی 
درباری اصطلاح میں ’نورتن‘ سے مراد علم و فن میں ماہر وہ وزیر و مشیر ہیں جو تعداد میں نو تھے۔ اس حوالے سے پہلا نام راجا بکرماجیت کا اور دورسرا نام مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کا ہے۔ 

کیری سے بنائی جانے والی چٹنی کو بھی ’نو رتن‘ کہتے ہیں۔ فوٹو فری پک

102 قبل مسیح میں پیدا ہونے والے راجا بکرما جیت کی شہرت کی ایک وجہ اس سے منسوب ’بکرمی کلینڈر‘ اور دوسری اس کے ’نورتن‘ ہیں۔ ’بکرمی نورتن‘ کے نام درج ذیل ہیں: دھنونتری، کشپنک، امرسنہا، شنکو، ویتال بھٹ، گھٹکرپر، کالی داس، ورارچی اور وارہہ مہر۔ 
یہ اتفاق تھا یا بکرما جیت کی پیروی۔ ہندوستان میں سب سے مستحکم حکومت قائم کرنے والے بادشاہ جلال الدین اکبر نے بھی اپنے دربار میں یکتائے فن جمع کیے جو ’اکبری نورتن‘ کہلائے، جن کے نام حسب ذیل ہیں:  
راجا بیربل، بو الفیض فیضی، ابو الفضل علامی، تان سین، عبد الرحیم خانِ خاناں، راجا مان سنگھ، ابوالحسن عرف ملا دو پیازہ، راجا ٹوڈرمل اور مرزاعزیزکوکلتاش۔ 
اب نہ بادشاہ رہے نہ ’نورتن‘، البتہ ’نورتن چٹنی‘ اب بھی باقی ہے۔ کیری سے بنائی جانے والی اس مرچیلی اور مٹھلونی چٹنی میں کچھ خصوصی اجزا پڑتے ہیں، یوں ان اجزا کی رعایت سے اسے ’نورتن‘ کہا جاتا ہے۔ کبھی آپ بنائیں تو ہمیں کھلائیں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: