61 سالہ سعودی خاتون نے تعلیم و تربیت کا عمل جاری رکھ کر سعودی خواتین کے لیے قابل تقلید مثال قائم کی ہے۔
العربیہ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سعدیہ فلفلان نے کہا کہ مجھے کلاس روم میں دیکھ کر کئی لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔
’انہیں اچنبھا ہوتا ہے کہ ایک بوڑھی خاتون بھی نوجوان لڑکیوں کی طرح تعلیم و تربیت حاصل کررہی ہے۔ حیرانگی کی کوئی بات نہیں اللہ نے مجھے عمدہ صحت سے نواز رکھا ہے۔ مجھے جو تربیتی کورس اچھا لگتا ہے اور مفید نظر آتا ہے اس سے منسلک ہوجاتی ہوں۔‘
ان کے مطابق تعلیم و تعلیم کا عمر سے کوئی تعلق نہیں۔ علم تو وہ نعمت ہے جس کی طلب ماں کی آغوش سے لے کر قبر میں اترنے تک رہتی ہے۔
سعدیہ فلفلان نے کہا کہ مجھے غیرممالک کی وہ مثالی خواتین بہت اچھی لگتی ہیں جو 70 اور 80 برس کے باوجود اپنی زندگی سرگرم طریقے سے گزارتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کو خواتین کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنا ہوگا۔ ان لوگوں کو اپنی سوچ بدلنا ہوگی جو سمجھ بیٹھے ہیں کہ پچاس برس کی عمر کے بعد خاتون کو گھر تک محدود ہوجانا چاہئے۔ میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ میری سوچ یہ ہے کہ یہی وہ عمر ہے جب خاتون اپنی گھریلو ذمہ داریوں اور خاندانی بوجھ سے ہلکی ہوجاتی ہے۔ یہی اس کے آگے بڑھنے کا صحیح وقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمر محض ایک گنتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
سعودی خاتون نے اپنی زندگی کی کپانی یہ کہہ کر بتائی کہ شادی کے بعد مشرقی ریجن منتقل ہوگئی- آمد ورفت کے مسائل کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ ترک کردیا اور خود کو اپنی اولاد اور خاوند کی نگہداشت تک محدود کرلیا۔ پانچ برس بعد مجھے نجی سکول میں ملازمت کا موقع ملا۔ جہاں میں 22 برس تک ملازمت کے ساتھ تعلیم بھی حاصل کرتی رہی۔
سعدیہ کا کہنا تھا کہ اس دوران میں نے کئی تربیتی کورس کرکے اپنی شخصیت کو بنانے سنوارنے کا کام کیا۔ میرا خواب تھا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لوں۔ ثانوی سکول کی تعلیم پر پانچ برس سے زیادہ گزر جانے کے باعث داخلے کی درخواست مسترد کردی گئی۔ میں نے فاصلاتی تعلیم کے نظام سے فائدہ اٹھا کر یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔
سعودی خاتون نے مزید کہا کہ گھر میں کسی کو بتائے بغیر داخلے کی درخواست دی تھی۔ دو ہفتے کے ہوشربا انتظار کے بعد داخلے کی منظوری آئی تب جاکر میں نے گھر والوں کو اعتماد میں لیا اور چھ برس بعد یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی تو اس وقت میری عمر 55 برس تھی۔
سعدیہ کا کہنا ہے کہ چھ بچوں کی ماں ہوں۔ زندگی میں کبھی گھریلو ملازمہ کی خدمات حاصل نہیں کیں بلکہ گھریلو فرائض اور تعلیم و تربیت کے تقاضوں میں توازن پیدا کرکے کام چلایا۔ شکر ہے کہ خاوند نے بھی ساتھ دیا اور بچوں نے بھی تعاون کیا- اب میری عمر 61 بر س ہوچکی ہے مگر میں درس گاہوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہوں۔