جدہ: حملے کا نشانہ بننے والے غیرمسلموں کے قبرستان کا تاریخی پس منظر
جمعرات 12 نومبر 2020 10:45
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قبرستان پانچ سو سال پرانا ہے۔ فوٹو الاخباریہ
جدہ کے غیر مسلموں کے قبرستان نے بہت سے ایسے غیر مسلموں کو آخری آرام گاہ فراہم کی جو مملکت کے مغربی ساحلی شہر میں رہائش پذیر رہے۔
اندرون شہر ایک ہزار مربع میٹر پر واقع تاریخی ’خواجات قبرستان‘ اپنی اونچی دیواروں، تین سو یا زائد قبروں پر سایہ فگاں درختوں کی وجہ سے کچھ خفیہ سا رہا ہے۔
تاریخی طور پر دیگر ممالک کے نمائندے اور ان کے رشتہ دار جو مملکت میں رہائش پذیر رہے کو وفات کی صورت میں آبائی علاقوں میں لے جانے میں مشکلات کے باعث یہیں دفن کیا جاتا تھا۔
تاریخ دان اور محقق ڈاکٹر عبدالرزاق ابو داؤد نے عرب نیوز کو بتایا کہ قبرستان کوئی خاص نشان نہیں رکھتا اور اس کی دیواروں کے ارد گرد موجود گھنے درختوں کی وجہ سے اسے پہچانا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبرستان کے حوالے سے کئی غیر مصدقہ کہانیاں موجود ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پانچ سو سال پرانا ہے۔
’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 1519 میں واسکوڈے گاما کی قیادت میں پرتگالیوں کی جانب سے شہر پر قبضے کی کوششوں کے دنوں میں یہ قبرستان وجود میں آیا، جب عثمانی دور حکومت میں حجاز کے خطے میں سفارتی نمائندگی کا نظام قائم ہوا۔ مغربی ممالک کی جانب سے ان کے شہریوں کے لیے قبرستان کے مطالبے پر یہ جنوبی جدہ شہر کی قدیم دیواروں کے باہر قائم کیا گیا‘
1985 سے 2015 تک ضلع الشاطئ کے میئر رہنے والے طلعت بن محمد بن طه غيث اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’قبرستان کو مسیحی قبرستان کہا جاتا ہے جس کا انتظام دیگر ممالک کی ایمبیسیز کے پاس ہے جو جدہ میں قونصلیٹ کے ذریعے کام کر رہی ہیں‘
اس کی نگرانی کا انتظام سالانہ بنیادوں پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قبرستان ان ممالک کے سابقہ نمائندوں کی تدفین کا مقام ہے اور انہوں نے اس سے قبل قبرستان پر حملے کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔