پاکستان میں سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس کے دباؤ میں کمی کی شکایات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں سب سے زیادہ گھریلو صارفین متاثر ہوتے ہیں۔
گیس دباؤ میں کمی کے باعث نہ صرف یہ کہ وقت پر ناشتہ اور کھانا نہیں ملتا بلکہ نہانے کے لیے گرم پانی دستیاب ہوتا ہے اور نہ ہی گھر گرم کرنے کے لیے گیس ہیٹر چلتا ہے۔
اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہت سے صارفین پائپ لائن سے گیس کا زیادہ پریشر حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر کمپریسر لگا لیتے ہیں جو دوسرے گھروں کے حصے کی گیس بھی کھینچ کر ان کے گھر منتقل کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
2019 میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کی وجہ ؟Node ID: 450746
-
کراچی: میٹر پر تالہ لگا کر لوٹنے کی وارداتیںNode ID: 458181
-
سعودی عرب کی تیل کے بعد گیس برآمد کرنے کی تیاریNode ID: 460796
حکام کی جانب سے اس اقدام کے خلاف واضح تنبیہہ کے باوجود صارفین یہ غیر قانونی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور جب تک چھاپہ مار کر ان کے گھروں سے یہ کمپریسر اتار نہ لیے جائیں، پورے علاقے میں گیس کا پریشر کم ہی رہتا ہے۔
یہ کمپریسر انتہائی خطرناک بھی ہیں اور بہت سے واقعات میں ان کے پھٹ جانے سے گھر والے شدید زخمی ہوچکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی جاتے ہیں۔
ملک کے شمالی حصے کو گیس سپلائی کرنے والی کمپنی سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے مطابق گذشتہ سال چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 600 سے زائد غیرقانونی گیس کمپریسر پکڑے گئے جب کہ رواں سال اب تک کمپریسر لگانے پر 160 گھروں کے گیس کنکشنز منقطع کیے جا چکے ہیں۔
کمپریسر کے ذریعے گیس چوری کے یہ واقعات زیادہ تر اسلام آباد کے دیہی علاقوں ترنول، سنگجانی، گولڑہ، میرا بادی، ترلائی، کھنہ، ترامڑی اور بہارہ کہو میں ہوئے ہیں جہاں گیس پریشر ویسے ہی کم ہوتا ہے۔

گیس کمپریسر کیسے کام کرتا ہے اور یہ کیوں خطرناک ہے؟
گیس کمپریسر ایک الیکٹریکل ڈیوائس ہے جس کا کام پائپ میں موجود گیس کو اپنی طرف کھینچ کر چولہے، گیزر یا ہیٹر کے برنر تک پہنچانا ہوتا ہے۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مطابق اوگرا قانون کے تحت کمپریسر جیسے غیر محفوظ آلات کے استعمال کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس سے نہ صرف انسانی زندگیوں کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے۔
کمپریسر سے گھروں میں گیس بھر جاتی ہے اور نتیجتاً سوتے میں دم گھٹنے، آگ لگنے اور دھماکوں جیسے واقعات ہوتے ہیں۔
سوئی نادرن گیس پائپ لائنز اسلام آباد ریجن کے جنرل مینیجر محمد ظہور نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ گیس کی زیادتی انسانی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے اور کمپریسر کے استعمال سے جانی اور مالی نقصان کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

’اگر آپ کمپریسر کا استعمال کریں گے تو یہ گیس کو کھینچے گا جس سے بل زیادہ آئے گا جسے ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گیس انسانی زندگیوں کے لیے خطرہ بھی ہے جب کہ اس کے باعث ہونے والے حادثات مالی اور جائیداد کے نقصانات کا باعث بھی بنتے ہیں۔‘
محکمہ گیس نے کمپریسر کے استعمال کو روکنے کے لیے گیس کنکشنز منقطع کرنے، بھاری جرمانے عائد کرنے اور مقدمہ دائر کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے استعمال میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔
محکمہ گیس کمپریسر والے گھروں کا سراغ کیسے لگاتا ہے؟
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مطابق جس طرح واپڈا کا ٹرانسفارمر ہوتا ہے، گیس کا اسی طرح کا ٹاؤن بارڈر سٹیشن ہوتا ہے۔ اس کی نگرانی سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ فلاں پائپ لائن میں گیس کا بہاؤ تیز ہوگیا ہے، یعنی گیس کھینچی جا رہی ہے۔
