آل پرائیوٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے صدر مطابق تعلیمی ادارے بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے (فوٹو: فیس بک)
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر ملک ابرار حسین کہتے ہیں کہ ملک میں تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ افسوس ناک ہے اور پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن اس فیصلے کو مسترد کرتی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں مکمل طور پر ایس او پیز پر عملدرآمد کیا جا رہا تھا اور یہ بات وزرا آن ریکارڈ بھی کہہ چکے ہیں لیکن اس کے باوجود تعلیمی اداروں کو ایک بار پھر بند کرنے کا فیصلہ افسوس ناک ہے۔‘
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے صدر نے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں بتایا کہ حکومت کو آگاہ کر دیا تھا کہ تعلیمی ادارے بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے جبکہ ایس او پیز پر مزید سختی سے عملدرآمد کروانے میں تعلیمی ادارے اپنا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت نے سٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو بالکل رد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اب اس حوالے سے ہم اپنا جامع لائحہ عمل بنائیں گے جس کا اعلان آئندہ دو روز میں کیا جائے گا۔‘
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز اینڈ کالجز ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ملک میں چھ ماہ تک تعلیمی ادارے بند رہے جبکہ ملک کے سرد علاقہ جات میں نو ماہ تک تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا جس سے طلبہ بری طرح متاثر ہوئے ’اب مزید ڈیڑھ ماہ کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے سے پورے نظام ہی متاثر ہو جائے گا۔‘
ادھر ملک میں کورونا وائرس کے لیے قائم کیے گئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک ہفتے میں سامنے آنے والے کورونا کیسز میں 19 فیصد کیسز تعلیمی اداروں سے سامنے آئے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں مثبت کیسز کی شرح 1.8 فیصد سے بڑھ کر تین فیصد ہو چکی ہے۔
ملک میں تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دسمبر میں تمام امتحانات کو بھی ملتوی کر دیا گیا ہے جبکہ آن لائن کلاسز جاری رہیں گی اور جنوری کے آغاز میں ملک میں کورونا کیسز کا جائزہ لیتے ہوئے 11 جنوری سے دوبارہ تعلیمی اداروں کو کھول دیا جائے گا۔
’تعلیمی ادارے بند لیکن تعلیمی سرگرمیاں جاری رہیں گی‘
وفاقی وزارت تعلیم کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ تعلیمی سرگرمیاں بھی بند ہو جائے گی صوبائی محکمہ تعلیم تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنا پلان ترتیب دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز کا تجربہ پہلے بھی کیا جاچکا ہے اور جن علاقوں میں آن لائن کلاسز ممکن نہیں وہاں اساتذہ طلبہ کو ہوم ورک ٹاسک دیں گے جبکہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے آنے یا نہ آنے کے حوالے سے فیصلہ صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔ پرائیویٹ سکولز کی جانب سے فیسوں کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا کے ترجمان افراسیاب خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے میں تعلیمی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کے لیے پلان ترتیب دیا جا رہا ہے۔
’جہاں آن لائن کلاسز ممکن نہیں ان علاقوں میں طلبہ کو ہوم ورک دیا جائے گا اور جس طرح پہلے ہفتہ وار ہوم ورک دیا جاتا تھا اس بار بھی اسی نظام کے تحت تعلیمی سرگرمیاں چلائیں گے۔‘
اساتذہ کے تعلیمی اداروں میں آنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے اس کا فیصلہ کریں گے کہ ان کو کتنے سٹاف کی ضرورت ہے،
’ظاہر ہے تمام اساتذہ کو تو سکولز نہیں بلایا جائے گا لیکن اپنی ضرورت کے تحت تعلیمی ادارے اس کا فیصلہ خود کریں گے۔‘
تعلیمی ادارے بند ہونے کے اعلان پر والدین نے ملے جلے ردعمل اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد کے رہائشی عابد حسین کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے بعد اپنے بچوں کو صرف سکول تک ہی محدود کر دیا تھا اور ٹیوشن سینٹر جانے سے روک دیا تھا کیونکہ وائرس ایک بار پھر تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن بچوں کی تعلیم بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے چھ ماہ سکول بند ہوئے تو پڑھائی نہ ہونے کے برابر تھی اور گھروں میں بچوں کو ہوم ورک کروانے اور سکول بھیجنے میں کافی فرق ہے، ظاہر ہے تعلیم تو متاثر ہوگی لیکن بچوں کی صحت تو اولین ترجیح ہے۔‘
صائمہ قریشی اسلام آباد کی ایک نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں وہ پانچ اور سات سال کے دو بچوں کی والدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے یہ اب بہت مشکل کام ہوگا کیونکہ میں اور میرے شوہر دونوں ملازمت کرتے ہیں، جب پہلے لاک ڈاؤن کیا گیا تو تعلیمی اداروں کے ساتھ دیگر شعبے بھی بند تھے جس کی وجہ سے زیادہ تر کام گھر سے ہی کیا جاتا تھا لیکن اب دفاتر تو کھل گئے ہیں لیکن تعلیمی ادارے بند کر دیے ہیں، ایک طرح تو یہ ٹھیک ہوا کہ بچے محفوظ رہیں گے لیکن اب ان کے پاس گھر میں کسی نہ کسی کو رہنا ہوگا کیونکہ بچوں کو گھر میں آٹھ گھنٹے اکیلے تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘