عالمی قوانین کے مطابق کراچی میں ڈھائی سو سے زائد آگ بجھانے والے ٹرک موجود ہونے چاہییں۔ فوٹو انسپلیش
کراچی میں آگ بجھانے کے صرف 44 فائر ٹینڈرز ہیں، جن میں سے صرف 14 قابلِ استعمال ہیں۔
بین الاقوامی معیار کے تحت ہر ایک لاکھ آبادی کے لیے ایک فائر ٹینڈر ہونا چائیے تاہم لگ بھگ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں 21 لاکھ سے زائد لوگوں کے لیے بمشکل ایک فائر ٹینڈر مہیا ہے۔
یہ بات گذشتہ ہفتے سندھ ہائی کورٹ کو ایک کیس کے دوران بتائی گئی۔
عالمی انسداد حادثات کے قوانین کے تناظر میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں ڈھائی سو سے زائد آگ بجھانے والے ٹرک موجود ہونے چاہییں جبکہ فائر سٹیشن کی تعداد 50 کے قریب ہونی چاہیے تاہم شہر قائد میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔
کراچی کے چیف فائر آفیسر مبین احمد کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق کراچی میں صرف 44 فائر ٹینڈرز ہیں جن میں سے 30 قابلِ استعمال نہیں۔
سندھ میں لوکل گورنمنٹ کے وزیر ناصر حسین شاہ کو کراچی سینٹرل فائر سٹیشن کے حالیہ دورے کے دوران آگاہ کیا گیا تھا کہ شہر میں موجود فائر سٹیشن کی کل تعداد 25 ہے۔ جس میں سے 11 غیر فعال ہیں یعنی کہ شہر قائد میں محض 14 فائر سٹیشن فعال ہیں۔
ان 14 فعال فائر سٹیشنز میں بھی لاتعداد مسائل ہیں جیسا کہ کچھ سٹیشن میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بالائی اور زیرِ زمین ٹینک موجود نہیں یہی وجہ ہے کہ آگ بجھانے کے عمل کے دوران پانی کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔
واٹر بورڈ کی جانب سے فائر سٹیشن کو پانی کی سپلائی دن میں کچھ مخصوص اوقات میں ہوتی ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں فائر ٹینڈرز کو پانی کی فراہمی کے لیے واٹر بورڈ کے باؤزرز کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں فائر سٹیشن کے مابین مواصلات کا نظام بھی غیر فعال ہے۔
فائر سٹیشن آفیسر مظہر رفیق کے مطابق شہرِ قائد میں سالانہ آگ لگنے کے ساڑھے چار ہزار سے زائد واقعات پیش آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آگ لگنے کے واقعات کی بنیادی وجہ غیر معیاری وائرنگ ہوتی ہے اور ایسا اکثر صنعتی علاقوں یا کمرشل عمارتوں میں ہوتا ہے۔
کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی بہتات کے باعث آگ لگنے کے واقعات سے نبردآزما ہونے کے لیے سنارکل کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس مقصد سے کراچی فائر ڈیپارٹمنٹ کے پاس چھ سنارکل موجود ہیں مگر ان میں سے صرف دو فعال ہیں۔ حالاں کہ موجودہ تناظر میں شہر کے ہر ضلع میں کم از کم دو سنارکل ہونی چائیں، تاہم اس کے برعکس سات اضلاع میں صرف دو فعال ہیں۔
کراچی فائر بریگیڈ کے سابقہ سربراہ تحسین صدیقی کے مطابق کراچی میں عمارتوں کی تعمیر سے قبل فائر ڈیپارٹمنٹ سے این او سی نہیں لیا جاتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ دنیا بھر کے میٹروپالیٹن شہروں کے لیے اصول ہے کہ تمام عمارتوں کی تعمیر سے قبل فائر ڈیپارٹمنٹ سے این او سی لازم ہے مگر کراچی میں اپنی پوری سروس میں انہوں نے کبھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا۔
اس حوالے سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے حکام نے عدالت کی جانب سے استفسار پر آگاہ کیا کہ بلڈنگ کوڈ اور این او سی کے معاملات کو بہتر بنانے کے لیے نظر ثانی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب فائر آفیسر کا کہنا تھا کہ بلڈنگ کوڈ کے تحت تمام عمارتوں کو داخلی راستوں پر بلڈنگ پلان آویزاں کرنا ہوتا ہے، مگر ایسا نہیں ہوتا اور آگ کے دوران وہ اندازے لگاتے آگے بڑھتے ہیں یا دوسروں سے پوچھتے رہتے ہیں۔
فائر بریگیڈ کا ہنگامی نمبر 16 بھی غیر فعال ہو چکا ہے، ایڈمنسٹریٹر کراچی افتخار شلوانی کے مطابق آگ کے واقعات کی صورت میں ہنگامی کالز کے لیے سوک سینٹر میں ایک کال سینٹر بنا دیا گیا ہے، تاہم عدالت نے اس طریقہ کار پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کو اسے درست کرنے کا حکم دیا ہے۔
فائر آفیسر مظہر کے مطابق فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ کا وائرلیس مواصلاتی نظام بھی غیر فعال ہے اور فی الوقت تمام گاڑیاں اور فائرمین آپس میں موبائل فون کے ذریعے رابطہ قائم کرتے ہیں۔
’ایسے میں ایمرجنسی کے دوران کنٹرول روم کا فائر ٹینڈرز سے اور آگ بھجانے کے دوران فائر مین کا آپس میں رابطہ قائم رکھنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔‘