جب نثار بزمی نے 19 ری ٹیکس کے بعد گانا ریکارڈ کرایا
جب نثار بزمی نے 19 ری ٹیکس کے بعد گانا ریکارڈ کرایا
منگل 1 دسمبر 2020 5:54
محمود الحسن -لاہور
نثار بزمی نئے گلوکار متعارف کراتے اور ان کے لیے خوب محنت سے نہیں گھبراتے تھے
تقسیم کے 15 برس بعد انڈیا سے پاکستان ہجرت کی۔ بمبئی میں وہ ایک کامیاب موسیقار ضرور تھے لیکن صف اول کے موسیقاروں میں ان کا شمار نہیںہوتا تھا۔
پاکستان آئے تو اس وقت یہاں بڑے بڑے موسیقاروں کا طوطی بول رہا تھا جن کی موجودگی میں خود کو منوانا اور انفرادی رنگ جمانا آسان نہیں تھا لیکن نئی سرزمین انہیں بہت راس آئی اور ان کا شمار چوٹی کے موسیقاروں میں ہوا۔
فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ان کی انٹری ہوئی۔ اسی فلم سے بریک تھرو مل گیا۔ نور جہاں کے ساتھ ان کا فنی اشتراک اسی فلم سے شروع ہوا۔ اس تخلیقی یکجائی نے آنے والے دنوں میں بہت سے یادگار گانےسننے والوں کو دیے۔
’ایسا بھی ہوتا ہے ‘ میں نور جہاں کی آواز میں اس مشہور غزل کی دھن نثار بزمی نے بنائی تھی: ہو تمنا اور کیا جان تمنا آپ ہیں
اس فلم کا گیت ’آئے آئے بہار کے دن آئے‘ ان کے لیے چیلنجاس لیے بن گیا کہ اس کی ریکارڈنگ کے وقت سٹوڈیو میں انھیں فنی اعتبار سے پرکھنے کے واسطے، خواجہ خورشید انور، رشید عطرے اور ماسٹر عنایت حسین موجود تھے۔ نور جہاں کی آواز میں گاناریکارڈ ہورہا تھا، نثار بزمی کے مطلوبہ معیار میں کوئیکسر رہ جاتی اس لیے بار بار ری ٹیک کروا رہے تھے۔ 19مرتبہ ری ٹیک ہونے کے بعد یہ گانا ریکارڈ ہو پایا۔
’ہیڈ کانسٹیبل‘ ریلیز ہونے کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم تھی۔ اس میں ان کی تیار کردہ دھن میںملکہِ ترنم نے یہ گیتبہت خوبصورتی سے گایا: اے کاش میرے لب پہ تیرا نام نہ آتا
فلمی دنیا میں اس کامیاب شروعات کے بعد وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔
فلم 'لاکھوں میں ایک 'بھی ان کی کامیابی کا پیغام لے کر آئی جسمیں نور جہان نے وہ مشہور گیت گایا جو کبھی پرانا نہ ہوا۔ ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘
یہ گیت بھی سننے والوں کی یادداشت کا حصہ بنا: بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا
فلم ’صائقہ‘ میں عمدہ موسیقی ترتیب دینے پر وہ پہلی دفعہ نگار ایوارڈ کے حق دار ٹھہرے۔ اس فلم کے یہ گانے بہت ہٹ گئے:
اے بہارو گواہ رہنا (احمد رشدی ۔ مالا)
اک ستم اور میری جاں ابھی جاںباقی ہے (مہدی حسن)
آجا تیرے پیار میں دل ہے بے قرار (رونا لیلیٰ)
مہدی حسن کی آواز میں اس یادگار گیت کی دھنبھی انہی نے بنائی : اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
اور احمد فراز کی اس مشہور غزل کو بھلا کون بھول سکتا ہے: رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
فلم ’انجمن ‘ میں رونا لیلیٰ کی آواز میں یہ گانا بہت ہٹ ہوا: آپ دل کی انجمن میں حسنبن کر آ گئے
یہ یادگار گیت بھی نثاز بزمی کی موسیقی اور رونا لیلیٰ کے فنی میلاپ کی دین ہے: دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ
اسی طرح یہ نغمہ بھی ہٹ ہوا: کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاںتیرے پیار میں
نثار بزمی اپنے کام کے سلسلے میں تجربوں اور نئی راہیں تلاش کرنے سے نہیں ڈرے۔ کئی نئے گلوکاروں کومتعارف کرانے کا کریڈٹ بھی ان کوجاتا ہے۔ نئے ٹیلنٹ کی کھوج اور اسے پرکھنا اپنی جگہ بہت اہم سہی لیکناسے بنانے سنوارنے کے لیے بھی بڑا پتا مارنا پڑتا ہے جس سےنثار بزمی نہیں گھبراتے تھے۔ انھوں نےطاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم کیا۔
گلوکار عالمگیر کو فلمی دنیا میں متعارف ہونے کے قصے سے آپ جان پائیں گے کہ نثار بزمی کس طرح سے نئے ٹیلنٹ کی آبیاری کرتے تھے۔
نور جہاں اور نثار بزمی میں باہمی احترام کا رشتہ تھا لیکن ایک زمانے میں دونوں کےتعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ گلوکاروں کی انجمن نے حکمصادر کیا کہ کوئی گلوکار نثار بزمی کے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ ان دنوں علی سفیان آفاقی ’جاگیر‘ بنا رہےتھے، جس میں ندیم اور دیبا پر احمد رشدی کی آواز میں گانا فلمایا جانا تھا۔ نثار بزمی کا بائیکاٹ ہوا تو احمد رشدی کو 'جاگیر' میں گانے سے منع کردیا گیا۔ اس پریشان کن صورت حال میں نثار بزمی نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے علی سفیان آفاقی سے کہا کہ وہ موسیقار بدللیں۔ یہ انہیں گوارا نہ ہوا تو کہا پھر نیا گلوکار آزما لیں ۔ اس پر آفاقی نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے پر اتنی جلدی گلوکار آئے گا کہاں سے؟
نثار بزمی بولے:”آسمان سے آئے گا، اتنی دیر آپ چائے پئیں۔“
اس کے بعد کی کہانی علی سفیان آفاقی نے اپنی کتاب ’فلمی الف لیلہ‘ میں کچھ یوں بیان کی ہے:
”کچھ دیر بعد ایک سانولا سا ، دبلا پتلا نوجوان گٹار ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوا۔ہم اس نوجوان کو روبن گھوش اور شبنم کے گھر میں بھی دیکھ چکے تھے۔ اس کا نام عالمگیر تھا۔ مشرقی پاکستان سے ان کا تعلق تھا۔ روبن کے گھر میں بھی یہ لڑکا اپنے ہی خیالوں میں کھویارہتا تھا اور گٹار بجاتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں اس نے اپنا سر منڈوا لیا تھا جس کی وجہ سے کچھ عجیب حلیہ لگتا تھا-
بزمی صاحب نے کہا: اگر آپ تیار ہیں تومیں عالمگیر سے گانا سنواﺅں؟“
ہم نے سر ہلا دیا۔ عالمگیر کو وہ گانا پہلے ہی یاد تھا چونکہ بزمی صاحب کے پاس آتا رہتا تھا اور یہ گانا اور دھن بھی سنتا رہتا تھا۔
عالمگیر کا گٹار تو ہم نے سنا تھا۔ آواز پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ اب جو عالمگیر نے اپنی بھرپور بنگالی آواز میں بول چھیڑے تو ہم سنتے رہ گئے۔ یہ گیت تسلیم فاضلی نے لکھا تھا اور اس کے بول تھے:
ہم چلے تو ہمارے سنگ سنگ نظارے چلے
عالمگیر کی آواز سارے کمرے میں پھیل گئی اور ایک سماں طاری کردیا۔ بہت اچھی آواز تھی اور اس نے مختلف مقامات پر جگہیں بھی لیں اور آواز کے ذریعے دلکش تاثرات بھی پیدا کیے ۔“
نثار بزمیجوطویل عرصہ شاعروں کی نظموں غزلوں اور گیتوں کی دھنیں بناتے رہےخود بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر ساز صدا خاموش ہوا ‘ کے نام سے شائع ہوا۔
69فلموں کی موسیقی ترتیب دینے والے اس موسیقار کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔ان کی آخری فلم ’ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ ‘ تھی جس کی نمائش2000ء میں ہوئی۔
استاد امان علی خان سے بمبئی میں موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے والے نثار بزمیکا اصل نام سید نثار احمد تھا ۔انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کرنے کے بعد 1946میں فلم 'جمناپار' سے ہندوستانی فلم انڈسٹری میں جس سفر کا آغاز کیا وہآ ئندہ پندرہ برس تک رواں دواں رہا۔ اس کے بعد وہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں آنے کا فیصلہ ان کے اور پاکستان کی فلم انڈسٹری دونوں کے لیے نیک فال ثابت ہوا۔