مغلیہ سلطنت میں نور جہاں کے جتنا رسوخ کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہوا (فوٹو:سوشل میڈیا)
قندھار میں آنکھ کھولنے والی مہر النسا،لاہور میں نور جہاں بن کر آسودہ خاک ہوئیں۔ لاہور سے انہیں بڑی محبت تھی جس کا اظہار اس لازوال شعر کی صورت میں کیا:
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم
(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے
ہم نے جان قربان کرکے نئی جنت خرید لی ہے)
اس شعر پر ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے تبصرہ کیا:
سو نور جہاں نے جان کے عوض جنتِ لاہور میں دو گز زمین خرید لی مگر زندہ دلان لاہور نے اس جاندادہ ہوائے لاہور کو یاد رکھنے کی طرح یاد نہ رکھا۔ نور جہاں کے قطعہ جنت میں اب ابابیلوں کا بسیرا ہے!
نور جہاں کے مزار سے متعلق نظم ونثر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن وہ سب ان کے ایک شعر کے آگے مات ہے
برمزارِ ما غریباں نے چراغے نہ گلے
نے پرِ پروانہ یابی نے سراید بلبلے
ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور زمانہ نظم ’تاج محل‘ میں محبت کی عظیم یادگار پر تنقید کی ہے:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
لیکن اپنی نظم ’نور جہاں کے مزار پر‘ میں وہ اسے دختر جمہور قرار دیتے ہیں:
پہلوئے شاہ میں یہ دختر جمہور کی قبر
کتنے گم گشتہ فسانوں کا پتہ دیتی ہے
کتنے خوں ریز حقائق سے اٹھاتی ہے نقاب
کتنی کچلی ہوئی جانوں کا پتہ دیتی ہے
نور جہاں اچھی شاعرہ تھیں۔ ادب کا نتھرا ستھرا ذوق رکھتی تھیں۔ اردو کے ممتاز شاعر ن م راشد نے اپنے مضمون ’نور جہاں کا ادبی فہم ‘ میں چند ایسے واقعات بیان کیے ہیں جو ان کی ذہانت و فطانت کی خبر دیتے ہیں۔
ن م راشد لکھتے ہیں:’نور جہا ں واحد عورت تھی جو جہانگیر کے دربار میں اپنی برجستگی اور حاضر دماغی کی وجہ سے کئی شاعروں پر سبقت لے جاتی۔ ایک دفعہ کسی بات سے ناراض ہو کر شہنشاہ نے زہریلی نظروں سے نور جہاں کی طرف دیکھا تو اس نے بادشاہ کے غصے کو موم کرنے کے لیے کہا:
’ہم نازک ہیں اور ہم میں یہ تلخ و ترش برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔ ہم آنسوؤں کے قطرے کی مانند ہیں جس کے لیے آنکھ کا جھپکنا بھی چکی میں پسنے کی طرح ہے۔‘
نور جہاں اور جہانگیر کے درمیان اکثر و بیشتر حاضر جوابی کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے محل کے بالا خانے میں کھڑے تھے تو انھوں نے دور ایک بوڑھے شخص کو سڑک کے کنارے جاتے دیکھا اس پر جہانگیر نے کہا:
’یہ ضعیف لوگ اپنے ناتواں جسموں کو کیوں لیے پھرتے ہیں؟‘
نور جہاں نے فوراً جواب دیا:
’یہ اپنی جوانی کے دنوں کو اس خاک میں تلاش کرتے ہیں۔‘
ایک اور موقع پر شہنشاہ اور اس کی محبوب ملکہ درباری شاعروں کے ہمراہ ایک ادبی محفل میں بیٹھے تھے۔ نور جہاں نے محفل کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر جھروکے سے باہر کی طرف جھانکا۔ اس پر جہانگیر نے اس کی طرف دیکھا اور بے قراری سے کہا:
’اپنے چہرے کا رخ میرے علاوہ کسی دوسری طرف نہ کیجیے کیونکہ میں آپ کے بغیر ایک لمحے کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ آپ کے ایک دل کا توڑنا ہزاروں کے قتل کے مترادف ہے۔‘
نور جہاں نے بے ساختہ کہا:
’میں آپ کی طرف سے کیسے منہ موڑ سکتی ہوں آپ تو میرے ارادوں اور خوابوں کی عبادت گاہ ہیں اور عبادت گاہ سے منہ موڑنا بھی ہزاروں کے قتل کے مترادف ہے۔‘
نورجہاں کی زندگی کے ادبی پہلو پر بات ختم کرکے اب ہم ان کے نشیب وفراز سے پُر سفرِ زیست کا احوال بیان کرتے ہیں۔
میرزا غیاث الدین بیگ نے صفوی دور میں ایران سے ہندوستان کا سفر اختیار کیا تو راستے میں قندھار میں اس کے ہاں اس بخت آور بچی نے جنم لیا جس نے آگے چل کر نور جہاں کے نام سے تاریخ میں اونچا مقام حاصل کرنا تھا۔
غیاث الدین ذہین آدمی تھے۔ ایرانی روایات کے شناور، سخن فہم، خطِ شکستہ کےماہر۔ انہوں نے اپنی شخصی خوبیوں کی بنا پر جلد ہی دربارِ اکبری میں اہم مقام حاصل کرلیا۔
مہرالنسا کے حسن اور ذہانت نے شہزادہ سلیم کا دل موہ لیا لیکن اکبربادشاہ کو دونوں کا سنجوگ کسی صورت قبول نہ تھا۔ انہوں نے 17 برس کی مہرالنسا کی شادی مغلیہ دربار کے اہلکار علی قلی بیگ سے کردی جسے بعد میں شیر افگن کا خطاب دیا گیا۔ شادی کے بعد اس کی تعیناتی بنگال میں ہوئی۔ اگلے 12 برس مہرالنسا نے ادھر گزارے۔ وہیں ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام لاڈلی رکھا گیا۔
اکبر بادشاہ کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوئے۔ ان کے دل میں شیر افگن کی دربار سے وفاداری کے بارے میں وسوسے تھے۔ بنگال کا گورنر قطب الدین خاں شیر افگن کے ہاتھوں مارا گیا تو وہاں پر موجود لوگوں نے غیظ میں شیر افگن کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کے مرنے پر جہانگیر نے کہا:
’امید ہے کہ جہنم ہی اس بدبخت اور روسیاہ کا دائمی ٹھکانہ ہوگا۔‘
مہرالنسا کی دربارشاہی میں واپسی ہوئی اور وہ بادشاہ کی سوتیلی والدہ سلطان بیگم کی خدمت پر مامور ہوئیں۔ آزمائش کا یہ دور زیادہ طویل ثابت نہ ہوا جلد ہی ان کی زندگی میں موسم بہار آگیا۔
جشن نوروزمیں جہانگیر نے انہیں دیکھا اور اپنا بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ حرم سرا کی کنیزوں میں شامل ہوئیں جس کے بعد ان کا اقبال بلند ہوتا چلا گیا۔
سنہ 1611 میں جہانگیر سے ان کی شادی ہوئی۔ وہ بادشاہ سلامت کی 20ویں بیوی تھیں۔
ظلِ سبحانی نے پہلے ان کا نام نور محل رکھا لیکن کچھ عرصہ بعد نور جہاں بیگم کا خطاب عطا ہوا۔ نور جہاں نے حسنِ عمل اور لیاقت سے بادشاہ کا دل مٹھی میں کرلیا۔
ان کے سامنے کسی اور کا چراغ نہ جلتا۔ جہانگیر کہا کرتے تھے کہ نور جہاں سے رشتہ مناکحت میں بندھنے سے پہلے وہ شادی کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے۔
دربار میں طاقت ملی تو انہوں نے حرم کی عورتوں کو میسر آزادیوں کا دائرہ وسیع کیا۔ مثلاً ان سے پہلے ملکہ کے درشن جھروکے میں بیٹھنے کا رواج نہ تھا۔ پاور پالیٹکس کی باریکیاں وہ اچھی طرح جانتی تھیں۔
قریبی رشتے داروں کو بڑے عہدے دے کر انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کی۔ اکلوتی بیٹی لاڈلی بیگم کی شادی جہانگیر کے چھوٹے بیٹے شہریار سے کی۔ مغلیہ سلطنت میں ان کے جتنا رسوخ کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہوا، جس کا ایک ثبوت سکوں پر ان کا نام کندہ ہونا تھا۔ شاہی فرمان بھی ان کے نام سے جاری ہوتے۔
مہابت خان نے جہانگیر کو قید کیا تو شوہرکو مصیبت سے نجات دلانے کے لیے وہ میدان عمل میں اتریں اور شوہر کو رہا کروا کر دم لیا۔
بادشاہ کے ملکہ پر اعتماد کا یہ عالم کہ وہ کہا کرتے تھے:
’میں ایک سیر شراب اور آدھے سیر گوشت کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔‘
جہانگیر کو شکار کا بہت شوق تھا۔ شکار کی مہموں میں نور جہاں ان کے ہمراہ ہوتیں۔ نشانہ بازی میں وہ طاق تھیں۔ ایک دفعہ بندوق سے چار شیر ڈھیر کیے تو بادشاہ بڑا متاثر ہوا اور ’تزک جہانگیری‘ میں لکھا:
’بندوق کا اتنا بہترین نشانہ میرے دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ ہاتھی پر بیٹھ کر عماری کے اندر سے چھ گولیاں چلائی جائیں اور ایک بھی خطا نہ کرے اور چاروں درندوں کو ہلنے جلنے اور جست لگانے کی بھی مہلت نہ ملے۔
میں نے اس نشانہ بازی پر تین ہزار اشرفیاں نچھاور کیں اور ہیروں کی پہنچیوں کی ایک جوڑی جس کی قیمت ایک لاکھ تھی نور جہاں کو عنایت کی۔‘
نورجہاں شوہرپر جان چھڑکتی تھیں۔ وہ بیمار ہوتا تو اس کی تیمارداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتیں۔ جہانگیرلکھتے ہیں کہ :
’نور جہاں بیگم جس کا سلیقہ اورتجربہ ان اطبا سے بڑھا ہوا ہے، خاص کر اس لیے کہ اس کی ہمدردی میں دل سوزی اور غم خواری بھری ہوئی ہے۔‘
ایک بار نور جہاں بہت دنوں تک بستر سے لگی رہیں۔ ہندو اور مسلمان طبیبوں کی کسی دوا سے افاقہ نہ ہوا تو تشویش بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس صورت حال میں حکیم روح اللہ نے علاج کے ذمے داری اپنے سر لی۔
اس حکیم حاذق کی دوا نے اثر کیا اور ملکہ رانی بھلی چنگی ہوگئیں۔ اس پر جہانگیر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ تزک جہانگیری میں وہ لکھتے ہیں:
’میں نے اس شاندار خدمت کے صلے میں حکیم روح اللہ کو اس کے مناسب حال منصب سے سرفراز کرکے تین مواضع اس کے وطن کے قریب بطور ملکیت عطا کیے، اور حکم دیا کہ حکیم موصوف کو چاندی سے تولہ جائے اور جو چاندی اس کے برابر ٹھہرے، وہ اسے انعام میں دے جائے۔‘
نور جہاں کی سیاسی زندگی کامیابیوں سے معمور ہے لیکن سنہ 1627 میں جہانگیر کی وفات کے بعد دربار کو اپنے تصرف میں رکھنے کی ان کی تمام تدبیریں الٹی ہوگئیں۔ وہ اپنے داماد کو شوہر کا جانشین نہ بنوا سکیں اور شاہ جہاں بادشاہ بننے میں کامیاب ہوگیا۔ نور جہاں جن کے نام کا سکہ چلتا تھا، گوشہ گمنامی میں زیست کرنے پر مجبور ہوئیں۔ شاہ جہاں نے دو لاکھ روپیہ سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد انہوں نے زندگی بھر کبھی سفید لباس زیب تن نہیں کیا اور اپنے اختیار سے کبھی شادی کی تقریب میں نہیں گئیں۔
سنہ 1645 میں 17 دسمبر کو نورجہاں کا انتقال ہوا اور لاہور میں شاہدرہ کے مقام پر باغ دل کشا میں جہانگیر کے مقبرے کے قریب دفن ہوئیں۔