Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا دوست، مسلمانوں کا ہمدرد

اپنی آپ بیتی میں خوشونت سنگھ نے لاہور میں گزرے وقت کے بارے میں لکھا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
خوشونت سنگھ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن حالات نے ان کے رہنے کی گنجائش کہاں چھوڑی تھی۔ آزادی کا وقت قریب آنے سے مختلف قوموں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے تھے۔
مدتوں ساتھ رہنے والے اب ایک دوسرے کی جان کے درپے تھے۔ خوشونت سنگھ کے ہمسایوں میں سے ایک نے گھرکے باہریہ لکھ کر لگا دیا تھا یہ پارسی کا مکان ہے۔ ایک مسیحی ہمسائے نے فرنٹ گیٹ پر صلیب کے نشان سے خود کو فسادیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی۔
اس مارا ماری اور نفسانفسی کے ماحول میں خوشونت کے یہاں ٹکے رہنے کی وجہ یہ بنی کہ قائداعظم نے ان سے لاہور میں رکنے کو کہا تھا۔ وہ انھیں لاہور ہائی کورٹ کا جج بنانا چاہتے تھے۔ یہ بات انہوں نے خوشونت سنگھ کے والد سے کہی تھی۔
بانیِ پاکستان خوشونت سنگھ کی شادی کی تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے انگریز سی آئی ڈی چیف سی ایچ ایورٹ نے انہیں بتایا تھا کہ لاہور میں ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں۔ صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے وہ لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ گھر کی چابیاں یارِعزیز منظور قادر کو دے دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا حالات معمول پر آتے ہی لوٹ آئیں گے۔
13 اگست 1947 کو وہ دہلی پہنچے جہاں قیام کے لیے والد کا گھر موجود تھا۔ تقسیم کے وقت کی تناتنی، فسادات اور ہجرت کے تجربے کے بارے میں کرب کا تخلیقی سطح پراظہار انہوں نے’ٹرین ٹو پاکستان‘ میں کیا، جس میں سرحد کے پاس ایک گاؤں کا ماحول ہے جہاں مسلمان اور سکھ طویل عرصے سے مل جل کرزیست کر رہے تھے لیکن تقسیم کے باعث جوعناد پیدا ہوا اس نے خطرناک صورت اختیار کرلی تھی۔
خوشونت نے ناول کے ذریعے تقسیم کے عمل کو انسانی رویوں میں پیدا ہوئے تغیر سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے آپ بیتی Truth, Love and a little Malace میں بھی لاہور میں گزرے وقت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے بارے میں لکھا ہے۔
تقسیم سے پہلے انھوں نے لاہور میں بہت اچھا وقت گزارا۔ اس شہر کے روادار اور کھلے ڈلے ماحول میں وہ زندگی سے حظ اٹھا رہے تھے اور وکیل کے طور پر اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہے تھے۔ اس زمانے کی ایک جھلک انھوں نے آپ بیتی میں کچھ یوں دکھائی ہے ’گورنمنٹ کالج لاہور میں بے فکری کے دو برس گزارنے کے بعد لاہور میرے لیے کوئی اجنبی شہر نہیں رہا تھا لیکن وہاں پیسہ کمانے کے لیے آنا دوسری بات تھی۔ میرے پاس سب کچھ تھا، ایک آراستہ پیراستہ فلیٹ اور دفتر، دو اعلیٰ کلبوں کی رکنیت، ایک کاسمو پولیٹن جو اونچے درجے کے ہندوستانیوں کے لیے تھا اور دوسرا جم خانہ، جو انگریزوں کی آماج گاہ تھا جس میں ’دیسی‘ ایک درجن سے زیاد نہ تھے۔ٌ 
وہ مزید لکھتے ہیں کہ 'میرے والد اور سسر کی اونچی حیثیت نے ججوں اور وزیروں کے دروازے میرے لیے کھول دیے تھے۔ میری قبول صورت اور نوجوان بیوی کے ساتھ بہت جلد لاہور میں ہماری تصویریں کھینچی جانے لگیں اور ہم ہر جگہ بلائے جانے لگے۔' (اردو ترجمہ: مختار زمن)

خشونت سنگھ نے اپنی زندگی میں کئی ایوارڈز حاصل کیے (فوٹو: سوشل میڈیا)

لاہور میں ان کے دوستوں اور شناساؤں کی ایک لمبی فہرست تھی۔ معروف مصورہ امرتا شیر گل بھی ان کی واقف کار تھیں۔ جن کی بے وقت موت نے لاہور کی فضا کو اداس کر دیا تھا۔ امرتا پریتم کی ادبی اٹھان ان کے سامنے کی بات ہے۔ ان کی اولین کتاب کے خریداروں میں وہ بھی شامل تھے۔
ممتاز مصور بی سی سانیال بھی ان کے دوست تھے۔ فیض احمد فیض سے بھی لاہور میں ان کا ملنا جلنا رہا۔ وہ انھیں غیر متعصب انسان قرار دیتے ہیں جن کے قریبی دوستوں میں ہندو اور سکھ شامل تھے۔ لاہور میں کمیونسٹ دانیال لطیفی سے ان کی دوستی ہوئی جن کی راست گوئی اور نیک دلی کی وہ تعریف کرتے ہیں لیکن مارکس ازم، طبقاتی جدوجہد اور سامراج کے بارے میں ان کی طویل گفتگو سے وہ بور ہوتے۔ خوشونت سنگھ نے ایک دفعہ بہت زیادہ گفتگو سے دوسروں کو بور کرنے والوں کو فہرست مرتب کی تواس میں سرفہرست دانیال لطیفی کا نام تھا۔
ایک دفعہ جب وہ اور ان کا باورچی گھر میں نہیں تھے اور دانیال اکیلے وہاں موجود تھے توخوشونت کی والدہ نے انھیں ملازم سمجھ کرصوفے پربراجمان ہونے پر ڈانٹا اور کہا کہ تانگے سے سامان اٹھا کر لاؤ۔ لطیفی نے بلا چوں و چراں حکم کی تعمیل کی۔ حقیقت کھلنے پر خوشونت کی والدہ کو بڑی پشیمانی ہوئی۔
خوشونت کی لاہور میں سب سے زیادہ گہری دوستی منظور قادر سے تھی جومعروف ادبی جریدے ’مخزن‘ کے ایڈیٹر اور نامورمصنف سرعبدالقادر کے بیٹے تھے۔ ایوب دور میں منظور قادروزیر خارجہ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ خوشونت سنگھ ان کے خلوص اور دیانت داری کے بڑے معترف تھے۔ ان کے بقول ’میں اپنی زندگی میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں، ان سب میں منظور ایسا آدمی تھا جو کبھی جھوٹ نہ بولتا تھا اور دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کی حتی الامکان کوشش کرتا‘۔

خشونت سنگھ کا تعلق پاکستان کے ضلع خوشاب سے تھا (فوٹو: گیٹی امیجز)

وہ جب بھی لاہور آتے منظور کی قبر پر ضرور حاضری دیتے۔ ممتاز فکشن نگار قرۃ العین حیدر نے ’کار جہاں دراز ہے‘ میں لکھا ہے ’وہ اپنے عزیز ترین دوست منظور قادر کا اکثر ذکر کرتے تھے جو لاہور میں تھے۔ ایک دن صبح گیارہ بجے ہم لوگ اپنا کام شروع ہی کرنے والے تھے کہ خوشونت سنگھ ہماری میزوں کی طرف آئے۔ ان کے ساتھ ایک خاتون تھیں۔ بہت ہی جذباتی انداز میں بولے ’یہ میرے پیارے دوست منظور قادر کی بیگم ہیں۔ پاکستان سے آئی ہیں۔ میں اس خوشی میں دفتر بند کررہا ہوں۔ تم لوگ گھر جاؤ‘ ہم سب نے سکول کے بچوں کی طرح جنہیں غیر متوقع طور پر چھٹی مل جائے خوشی خوشی اپنی راہ لی‘۔
لاہور میں بیتے اچھے اور حسین لمحوں کی یاد خوشونت سنگھ کے دل و دماغ سے کبھی محو نہ ہوئی۔ اس لیے وہ اس نتیجے پر پہنچے’میں اپنی پوری زندگی میں پنجابی مسلمانوں سے زیادہ فیاضی برتنے والے لوگوں سے نہیں ملا‘ خوشونت سنگھ جب ’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘کے ایڈیٹر تھے قرۃ العین حیدر کو بھی ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
وہ ان کی شخصیت اور مسلمانوں سے ہمدردی کے بارے میں لکھتی ہیں ’خوشونت سنگھ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ انھوں نے پہلی میٹنگ میں ہم لوگوں سے کہا ’دیکھو بھئی ویکلی بے حد ڈل ہوگیا ری ویمپ کر کے سیل بڑھائی جائے‘ پھر انھوں نے ویکلی کو دلچسپ اور ہر دلعزیز بنانے کے چند نسخے بتائے۔ وہ خود بہت دلچسپ اور باغ وبہار آدمی تھے۔ سٹاف نے ان کو بہت پسند کیا۔ وہ کام لینا بھی جانتے تھے۔ اب مختلف خواتین نے دفتر آنا شروع کیا فلم سٹار، ماڈلز، جرنلزم اور ادب کی شائق خواتین کی بھیڑ لگ گئی۔
وہ مزید لکھتی ہیں کہ خوشونت سنگھ بنیادی طور پر ایک نہایت قدامت پسند اور شریف انسان تھے لیکن عموماً پنجابیوں کی طرح تھوڑے سے بے تکلف اور تھوڑے سے ہو حق کے شوقین، مسلمانوں کے ہمدرد اور حامی تھے۔ انھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ویکلی میں مضامین شائع کرنے شروع کیے۔ عید نمبر نکالا۔ ویکلی میں جہاں کبھی بھولے سے مسلم کلچر کے بارے میں نہیں چھپتا تھا، اس میں اس قسم کے مضامین اور تصویروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں فکشن ایڈیٹر تھی۔ ڈھیروں کہانیاں سارے ہندوستان سے موصول ہوتیں۔ جن میں سے چند ایک ہی قابل اشاعت تھیں۔ وہ بھی قطع و برید اور زبان کی اصلاح کے بعد، ایک کہانی جھانسی سے موصول ہوئی۔ اس وقت میں ایڈیٹر کے کمرے میں تھی۔

خشونت سنگھ کے ناول ٹرین ٹو پاکستان کو بہت پذیرائی ملی (فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کے مطابق 'چپڑاسی نے کہانی لا کر مجھے دی۔ میں نے اسے پڑھا۔ اچھی خاصی تھی لیکن اتنی بھی اچھی نہیں کہ اسے شائع کیا جائے۔ میں نے کہا ’دیکھیے مسٹر سنگھ یہ ایک اور افسانہ آیا ہے، لکھنے والی کا نام عطیہ ہے‘ بغیر دیکھے ہی فرمایا، چھاپ دو، لکھنے والی لڑکی ہے اور مسلمان ہے لیکن میں نے بہرحال وہ کہانی منتخب نہیں کی مگر خوشونت سنگھ کے اس رویے سے ان کی خوش دلی اور نیک نیتی ظاہر ہوتی تھی۔'
ہندوستان میں خوشونت سنگھ نے صحافی اور ادیب کی حیثیت سے ناموری حاصل کی۔ ان کے ناول ’ٹرین ٹو پاکستان‘ اور ’دلی‘کو بہت پذیرائی ملی۔ دو جلدوں میں سکھوں کی تاریخ قلمبند کی۔ افسانے لکھے۔ ترجمے کیے۔ خاکے رقم کیے۔ آپ بیتی لکھی۔ علامہ اقبال کی نظموں ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کا ترجمہ کیا۔ خوشونت سنگھ کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے صحافیوں میں ہوتا تھا۔
قلم کار کی حیثیت سے ان کا درجہ تو بلند تھا ہی لیکن وہ ایک کامیاب ایڈیٹر بھی تھے۔’السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا‘ نے ان کے دور ادارت میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ موقر جریدے ’ہندوستان ٹائمز‘ کے بھی ایڈیٹر رہے۔ وہ ایک دلیراورباضمیر صحافی تھے۔ 1984 میں گولڈن ٹیمپل میں فوجی آپریشن بلیو سٹار پر انھوں نے پدم بھوشن ایوارڈ احتجاجاً حکومت کو واپس کر دیا۔
وہ بھارتی راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ پاکستان سے انھیں محبت تھی۔ ان کا آبائی گاؤں ہڈیالی (خوشاب) پاکستان میں ہے، جس سے ان کی جذباتی وابستگی تھی۔ ضیاالحق کے دور میں وہاں گئے تو گاؤں کے باسیوں نے دیدہ و دل فرشِ راہ کردیے۔ خوشونت سنگھ کا کہنا تھا کہ انھیں پرو پاکستان کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ پاکستان سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہونا دراصل پرو انڈیا ہونا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان وہ ملک ہے جہاں میری جڑیں ہیں، یہ میری جنم بھومی ہے، مجھے اس ملک سے ہمیشہ گہری محبت رہی ہے۔ پاکستانی کے لیے ان کی خیرخواہی شدت پسندوں کو کھلتی تھی اور وہ انھیں اپنی سرزمین پر موجود آخری پاکستانی قرار دیتے۔ پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں جو ہندوستانی سرگرم رہے ان میں خوشونت سنگھ نمایاں تھے۔

خوشونت سنگھ نے ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 20 مارچ 2014 کو دہلی میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلیں۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کی ارتھی کی راکھ ہڈیالی پہنچی جہاں اسے محفوظ کرلیا گیا۔ بیس مارچ 2014 کو ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ سے ہماری ملاقات ہوئی توانھیں خوشونت سنگھ کے جہان سے گزر جانے کی خبر دی۔
اس پر انھوں نے بڑی حیرانی سے ایک اتفاق کا ذکر کیا جس کی بابت بعد ازاں انھوں نے اپنے کالم میں لکھا: ’میانوالی ایئربیس کو فضائیہ اور پاکستان کے عظیم ہیرو ایم ایم عالم کے نام کرنے کی تقریب سے واپسی پر میں میاں طاہر سلیم کے ذاتی جہاز سیسنا میں واپس لاہور آ رہا تھا، جب دریائے جہلم کے ادھر خوشاب کے نواح میں طاہر نے ایک چھوٹے سے قصبے کی جانب اشارہ کیا، یہ ہڈیالی کا قصبہ ہے، کیا آپ اسے جانتے ہیں۔ ہڈیالی میں نے حیرت سے کہا میں آج اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں اور وہ بھی چھ ہزار فٹ کی بلندی سے یہاں خشونت سنگھ پیدا ہوا تھا اسی شام میں ’ریڈنگز‘ کی بک شاپ میں جاتا ہوں تو محمود مجھ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ’تارڑ صاحب، بابا سنچری نہیں کر سکا، ننانوے پر آؤٹ ہو گیا، کون سا بابا؟ خشونت سنگھ مر گیا ہے۔ میں ایک نامعلوم سناٹے میں آگیا اس کی موت کی خبر سے اتنا نہیں جتنا اس احساس سے کہ یہ اتفاق نہیں ہو سکتا کہ میں آج پہلی بار خشونت سنگھ کی جائے پیدائش کے اوپر سے گزرتا ہوں اور اسی روز اس کی موت کی خبر آ جاتی ہے۔ اگر یہ اتفاق نہیں تو اور کیا ہو سکتا۔'
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: