پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا کچھ بھی شعبدہ دکھا سکتا ہے۔ یہ چاہے تو دن کو رات اور رات کو دن بتا سکتا ہے۔ زہر کو تریاق اور تریاق کو زہر بنا سکتا ہے۔ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا سکتا ہے۔ آج کل ایک ایسا تماشا ہے جو ہر روز ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ کچھ تجزیہ کار اور زہریلے سرکاری ترجمان سارا دن مل کر سکرینوں پر ایسی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ سچ خاک میں مل جاتا ہے اور روز جھوٹ کا اقبال بلند ہوتا ہے۔
پرنٹ میڈیا ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے ہتھیار پھینک چکا ہے۔ سوشل میڈیا ہر شخص کی دسترس میں اب تک نہیں۔ معلومات کی سہل رسائی کا واحد ذریعہ اب بھی الیکٹرانک میڈیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بولے جانے والے لفظ کو ہی لوگ سچ سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
آٹے کا ٹرک عظمیٰ بخاری کے گھر پہنچ گیاNode ID: 454506
-
’عدالت دیکھے گی بی آر ٹی میں مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟‘Node ID: 482741
-
’کسی نے سٹریس دیکھنا ہو تو اسحاق ڈار کا چہرہ دیکھ لے‘Node ID: 522196
مثال کے طور پرایک خاص طرح سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی گئی کہ نواز شریف کے لندن میں چار فلیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستان 70 سال سے ترقی نہیں کر سکا۔ یہ بات اس تسلسل سے کی گئی کہ بہت سے پاکستانی اس بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ ان کو کبھی یہ نہیں پتہ چلے گا کہ لندن میں نواز شریف کے علاوہ کس کس کی اس سے بھی زیادہ عالیشان رہائش گاہیں ہیں۔ امریکہ میں کس کس کے اربوں کھربوں کے کاروبار ہیں۔ فلیٹ تو چھوٹی سی چیز ہے لوگوں نے تو دساور میں جزیرے تک خرید لیے۔ ہر بات کا جواب یہی ہے نواز شریف کے لندن میں چار فلیٹ ۔۔۔
نواز شریف کی والدہ کے انتقال کے بعد تین دفعہ کے وزیراعظم کی والدہ کے انتقال پر ایک وزیر نے پوری پریس کانفرنس کی کہ والدہ کو پارسل میں بھیج دیا ۔ شریف خاندان نے پیسے بچا لیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی نواز شریف کی والدہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھا گیا تھا۔

ہمارے معاشرے میں تو لوگ ایسے موقعوں پر گلے شکوے بھول جاتے ہیں۔ داد رسی کرتے ہیں غم گساری کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ان سب سماجی قوانین سے ماروا نظر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر بھی ٹھٹھے لگانے سے باز نہیں آتے۔
اس طرح تقریر اور تصویر دکھانے کی ممانعت کے باوجود اسحاق ڈار کے بی بی سی ہارڈ ٹاک پر انٹرویو کا ایک مخصوص حصہ نجی چینلز پر عوام کو بار بار دکھایا گیا۔ یوں لگتا تھا اسحاق ڈار اپنی کرپشن کا اقرار کر رہے ہیں یا جائیدادیں چھپا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی سے پاکستانیوں کی اکثریت کو بس اتنی ہی خبر ملی کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ کم ہی لوگوں نے شاید پورا انٹرویو دیکھا ہو۔
ٹی وی کی سکرینوں پر اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی ٹیم اچھی نہیں مگر خان خود کرپٹ نہیں ہے۔
