Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن کا دائیں، شام کا بائیں اور شہر حلب کا دودھ سے کیا تعلق؟

گرم اوڑھنیوں میں سب سے دلچسپ معاملہ ’رضائی‘ کا ہے (فوٹو: پکسا بے)
برف کی طرح دسمبر کا سفر ہوتا ہے
ہم اسے ساتھ نہ لیتے تو رضائی لیتے
شاعر اس شعر میں ہمسفر کو ’کمبل‘ سمجھ کر اُس سے ’رضائی‘ کا کام لینا چاہتا ہے۔ شاعربھی مجبور ہے کہ دسمبر کی کڑکڑاتی سردی میں کمبل، لحاف، کھیس، دُھسّا، شال، دوشالہ، لوئی، رضائی اور دُلائی کا ذکرنہ کرے تو کیا کرے کہ:
سردیاں‘ سخت ہیں اور جان عزیز
گرم اوڑھنیوں اور اوڑھ کر سو جانے والی چیزوں میں سب سے دلچسپ معاملہ ’رضائی‘ کا ہے۔
بعض لغت نگار ’رضائی‘ کی نسبت اس کے موجد ’محمد رضا‘ کی طرف کرتے ہیں۔ ایک دوسری رائے کہ مطابق ’رضائی‘ کی اصل عربی لفظ ’ردا‘ یعنی چادر ہے۔ جو ’ردا‘ سے ’ردائی‘ ہوا اور پھر ’رضائی‘ پکارا گیا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق اور فرہنگ آصفیہ والے مولوی سید احمد دہلوی نے ’رضائی‘ کا املا ’رزائی‘ لکھا ہے۔ کچھ ماہرین زبان کے مطابق لفظ ’رزائی‘  فارسی مصدر ’ریزدن‘ یعنی ’رنگنا‘ سے نکلا ہے۔ چوں کہ ’رزائی‘ رنگین ہوتی ہے اس لیے یہ بات اس کے حق میں جاتی ہے۔ ایک اور محقق کے مطابق ’رزائی‘ کی اصل سنسکرت کا ’رجائی‘ ہے۔ سنسکرت میں ’رجائی‘ کپڑے کو کہتے ہیں۔
فارسی فرہنگ ’ناظم‌الاطباء‘ کے مؤلف میرزا علی‌ اکبرخان نفیسی ’رضائی‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
قسمی از شالِ کشمیری که در فصل زمستان بر سر اندازند‘ یعنی ایک قسم کی کشمیری شال جو موسم سرما میں اوڑھی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں ’رضائی‘ آغاز میں شال ہی کی طرح ہلکی پھلکی تھی جسے گزرتے وقت اوربڑھتی سردی نے دبیز تر بنا دیا۔  
اب ’رضائی‘ کو لپیٹتے اور دسمبر کی بات کرتے ہیں کہ یہ ناکام عشاق کا موسم بہار ہے۔ یقین نہ آئے تودرج ذیل شعر ملاحظہ کریں:
دسمبر کی شب آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
یوں تو ’دسمبر‘ بارہواں مہینہ ہے مگر اس کے معنی ’دسواں‘ ہے۔ اس بات کو اردو کی راہ سے سمجھیں۔ سات سے ستمبر، آٹھ  سے اکتوبر، نو سے نومبر اور دس سے دسمبر بناتا ہے۔

کیلنڈر میں آخری اصلاحات چند صدی قبل ’پوپ گریگوری‘ کے حکم سے ہوئی تھیں (فوٹو: سوشل بیکرز)

بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں رومی کیلنڈر فقط دس مہینے کا تھا، جو آمدِ بہار کے ساتھ  مارچ سے شروع ہوتا اور دسمبر میں ختم ہوجاتا، جب کہ دسمبر کے بعد مسلسل دو مہینے بنا کسی نام کے ہوتے اس لیے انہیں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔
آج کل جسے ہم ’عیسوی کیلنڈر‘ کے نام سے جانتے ہیں، اس میں آخری اصلاحات چند صدی قبل ’پوپ گریگوری‘ کے حکم سے ہوئی تھیں یوں اُس کی نسبت اس کیلنڈر کو ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جاتا ہے۔ کیلنڈر کی کہانی نئے سال کے لیے اٹھا رکھتے ہیں اور مختلف نسبتوں سے دنیا میں موجود شہروں، ملکوں اور دریاؤں میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے سعودی عرب کا ذکر ہوجائے کہ اس سرزمین پر مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات موجود ہیں۔ اس ملک کا نام حکمران خاندان ’آل سعود‘ کی نسبت سے ’سعودیہ‘ ہے۔
اگر آپ جزیرہ عرب میں اس طرح کھڑے ہوں کہ آپ کا رخ مشرق کی طرف ہو تو آپ کے دائیں جانب ’یمن‘ اور بائیں جانب ’شام‘ کا ملک ہوگا۔
دلچسپ بات یہ کہ ’یمن‘ لفظ ’یمین‘ سے ہے جس کے معنی ’دایاں‘ جب کہ ’شام‘ کے معنی ’بایاں‘ ہے۔ ان دونوں ملکوں کو یہ نام اسی دائیں اور بائیں سمت کی رعایت سے دیے گئے ہیں۔

عربی میں دودھ کو ’لَبَن‘ بھی کہتے ہیں (فوٹو: پکسا بے)

حلب‘ ملک شام کا ایک مشہور شہر ہے۔ ’حلب‘ عربی میں دودھ کو کہتے ہیں۔ دودھ تازہ ہوتو ’حلیب‘ کہلاتا ہے۔ پھر اسی نسبت سے دودھ دینے والی اونٹنی اور بکری کو ’حَلوُوْب‘ ، دودھ والے (گوالے) کو ’حَلَّاب‘ اور ڈیری شاپ کو ’مَحْلَب‘ کہتے ہیں۔ چوں کہ جانور دو وقت (صبح اور شام) دودھ دیتے ہیں یوں اس رعایت سے عربی میں صبح و شام بولنا ہو تو ’حَلْبَتَان‘ کہتے ہیں۔
اب واپس شہر’حلب‘ پر آتے ہیں کہ اسے یہ نام کیوں دیا گیا۔ روایت کے مطابق اس مقام پر جناب ابراہیم اپنی بھیڑوں کا دودھ دوہا کرتے تھے یوں اس مقام کا نام ہی ’حلب‘ پڑا گیا۔
عربی میں دودھ کو ’لَبَن‘ بھی کہتے ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس ’لَبَن‘ کا ملک ’لبنان‘ سے کیا تعلق ہے؟
تو عرض ہے کہ اس ملک کا نام اس کے مشہور پہاڑ ’لبنان‘ کی نسبت سے ہے۔ اور خود ’لبنان‘ کا یہ نام اس پر پائے جانے والے اُن درختوں کی وجہ سے ہے، جن سے دودھ جیسا گوند نکلتا ہے۔ دودھ جیسے گوند کی نسبت سے درخت کا نام ’لُبنَی ہوا اور’لُبنَی‘ کے تعلق سے پہاڑ کا نام ’لبنان‘ ہوگیا۔ جو بعد ازاں ملک کا نام قرار پایا۔
لبنان کے ساتھ ملک ’اسرائیل‘ واقع ہے۔ ’اسرائیل‘ عبرانی لفظ ہے اور حضرت یعقوب کا لقب ہے۔ اسرائیل کے معنی ’خدا کا سپاہی‘ ہیں۔
اسی خطے میں ملک ’عراق‘ بھی واقع ہے۔ عربی میں ’عِرَاق‘ سمندر اور دریا کے کنارے کو کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ ملک دریائے فُرات اور دریائے دِجلہ کے کنارے آباد ہے لہٰذا اس نسبت سے اسے ’عِرَاق‘ کہتے ہیں۔

قدیم زمانے میں اونٹ کے تاجر اونٹ پر لگے ’زخم‘ کو خریدار سے چھپانے کے لیے اس پر ’دجالہ‘ یعنی ’کیچڑ‘ مل دیتے تھے (فوٹو: پکسا بے)

اب لگے ہاتھوں دریائے ’فُرات‘ اور ’دجلہ‘ کے ناموں پر بھی غور کرلیں۔ ’فُرات‘ کے معنی ’میٹھا‘ ہیں اور ظاہر ہے کہ اسے یہ نام اس کے شیریں پانی کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
دجلہ‘ کی اصل ’دجل‘ ہے جس کے معنی ’کیچڑ‘ ہیں چوں کہ یہ دریا اپنے ساتھ بہت سی گاد (کیچڑ) لاتا ہے اس لیے ’دجلہ‘ کہلاتا ہے۔
قدیم زمانے میں اونٹ کے تاجر اونٹ پر لگے ’زخم‘ کو خریدار سے چھپانے کے لیے اس پر ’دجالہ‘ یعنی ’کیچڑ‘ مل دیتے تھے جو سوکھنے پر زخم کو چھپا دیتا تھا۔ اس سے ’دجل‘ کے معنی میں چھپانے اور پردہ ڈالنے کا مفہوم پیدا ہوا۔ اسے آپ ترکیب ’دَجَلَ الحَق‘ یعنی ’حق پر باطل کا پردہ ڈالنا‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ چوں کہ اس عمل میں دھوکا دہی بھی شامل ہے اس لیے دھوکے باز کو ’دَجّال‘ بھی کہتے ہیں۔
قرب قیامت کی نشانیوں میں ’دجال‘ کی آمد بھی شامل ہے جو اپنی جعل سازی اور فریب کاری سے ایک عالم کو دھوکے میں مبتلا کردے گا۔
اب ’دھوکے‘ کی رعایت سے مہاراشٹر کے نوجوان شاعر’رضوان کشفی‘ کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
ہر ایک شخص کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے
تمہارے لہجے میں کتنا کمال رکھا ہے

شیئر: