Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوادر کو آہنی باڑ سے محفوظ بنانے کے منصوبے پر تحفظات

ضلعی عہدے دار نے بتایا کہ گوادر کی ضلعی انتظامیہ نے باڑ لگانے کی مخالفت کی (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو آہنی باڑ لگا کر محفوظ بنانے کے منصوبے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی خطرات کو کم کرنے کے لیے شہر کے گرد باڑ لگائی جارہی ہے تاہم اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ باڑ لگانے سے شہر کا دیہی حصہ کٹ کر رہ جائے گا اور مقامی لوگوں کو آمدروفت میں مشکلات پیدا ہوں گی۔ 
بحیرہ عرب میں دنیا کے بڑے سمندری تجارتی راستے پر واقع گہری بندرگاہ کا حامل گوادر شہر پاک چین اقتصادی راہداری کا مرکز ہے۔
گوادرمیں چین کے تعاون سے اربوں ڈالر کے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے تاہم یہاں شدت پسندوں کی کارروائیاں حکام کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
پاکستان نے گوادر اور سی پیک کے منصوبوں کی حفاظت کے لیے خصوصی سکیورٹی ڈویژن بھی بنایا ہے۔
پاک بحریہ نے2016 میں جدید ڈرونز، ایئر کرافٹس اور ہتھیاروں سے لیس ’ٹاسک فورس 88‘ کے نام سے الگ یونٹ قائم کیا جس کا مقصد گوادر پورٹ کو لاحق روایتی اور غیر روایتی خطرات سے بچانا ہے۔ 
گوادر میں نگرانی کے نظام کو مؤثر بنانے کے لیے اسلام آباد اور لاہور کے طرز پر سیف سٹی پراجیکٹ پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔
 گوادر کی ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے نا م ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ شہر کے گرد باڑ لگانے کا یہ منصوبہ بھی سیف سٹی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔
پشکان سے لے کر کوسٹل ہائی وے جیونی زیرو پوائنٹ تک باڑ لگائی جائے گی۔ اس طرح گوادر کا 24 مربع کلومیٹر شہری علاقہ مکمل طور پر حفاظتی حصار میں آجائے گا۔
شہر میں داخلے کے لیے صرف دو یا تین مقامات پر دروازے بنائے جائیں گے۔ ان دروازوں پر چیک پوسٹیں قائم کرکے جدید قسم کی سکیننگ مشینیں اور ہائی ڈیفینیشن کیمرے نصب کیے جائیں گے جس سے آنے جانے والوں کی کڑی نگرانی ممکن ہوسکے گی۔ 
ضلعی عہدے دار کے مطابق سیف سٹی پراجیکٹ کی وفاقی و صوبائی حکومت نے منظوری دی ہے۔ اس پراجیکٹ کا پہلا مرحلہ ایک ارب 47 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔
شہر میں ڈیڑھ سو مقامات پر تقریباً 500اعلیٰ معیار کے کیمرے لگا کر انہیں فائبر آپٹک کے ذریعے ایک مرکزی کنٹرول روم سے منسک کیا جائے گا۔ یہ کیمرے تاریکی میں دیکھنے، گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پہچاننے کی صلاحیت کے بھی حامل ہوں گے۔ 

گوادر کے سیاسی و سماجی تنظیموں نے باڑ لگانے کی مخالفت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ضلعی عہدے دار نے بتایا کہ گوادر کی ضلعی انتظامیہ نے باڑ لگانے کی مخالفت کی تاہم گزشتہ سال مئی میں گوادر کے پرل کانٹینینٹل ہوٹل پرشدت پسندوں کے حملے کے بعد سکیورٹی اداروں نے سکیورٹی خدشات اور گوادر میں مقیم چینی باشندوں کی حفاظت کے پیش نظر باڑ لگانے پر اصرار کیا۔ 
گوادر کی سیاسی وسماجی تنظیموں نے باڑ لگا کر شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے آئین سے متصادم اقدام قرار دیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے گوادر میں ضلعی نائب صدر آدم قادر بخش کا کہنا ہے کہ ’گوادرمیں پہلے ہی سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات موجود ہیں۔ ایسے میں مزید رکاوٹیں پیدا کرکے شہریوں کے لیے آمدروفت میں نئی مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔‘
آدم قادر بخش کے مطابق گوادر کے نئے بین الاقوامی ایئر پورٹ سمیت ضلع کا ایک بڑا حصہ باڑ سے باہر رہ جائے گا۔ سربندر، شنکانی در، نگور شریف، چب کلمتی، پشکان، پلیری، ڈگارو، زیارت مچھی، چب ریکانی، گامارو، شابی، پلیری شے، موسیٰ بازار سمیت درجنوں گاﺅں گوادرشہر سے کٹ جائیں گے۔
’یہاں رہنے والوں کو رشتہ داروں سے ملنے میں دقت ہوگی۔ وہ زمیندار بھی متاثر ہوں گے جن کے گھر باڑ کے اندر اور کھیت باڑ سے باہر رہ جائیں گے۔ ان کے لیے چند منٹ کا سفر گھنٹوں میں تبدیل ہو جائے گا کیونکہ شہر میں داخل ہونے یا باہر نکلنے کے لیے صرف دو یا تین مقامات پر راستے دیے جا رہے ہیں۔‘
آدم قادر بخش کا کہنا ہے کہ گوادرمیں حالیہ سالوں میں پی سی ہوٹل حملے کے علاوہ کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا، امن وامان کی صورتحال بہتر ہے اس لیے سکیورٹی کے نام پر مقامی لوگوں کو مزید تنگ نہ کیا جائے۔

آدم قادر بخش کا کہنا ہے کہ گوادر میں مقامی لوگوں کی نقل و حرکت پر پہلے سے ہی پابندیاں ہیں (فوٹو: اُردو نیوز)

اردو نیوز نے اس معاملے پر صوبائی حکومت کا موقف جاننے کے لیے بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے معلومات لے کر مؤقف دینے کا کہا مگر بعد میں مسلسل کوششوں کے باوجود لیاقت شاہوانی سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر سینیٹر کبیر محمد شہی اور جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی نے بھی کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس عمل کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر سیف سٹی پروجیکٹ کے ذریعے گوادر شہر کو باڑ لگا کر باقی پورے ضلع اور بلوچستان سے الگ کرنے کی سازش کا آغاز کردیا گیا ہے۔ ’لوگوں کے لیے ایک کلومیٹر کا فاصلہ اب چالیس پچاس کلومیٹر بن جائے گا۔‘
گوادر کی رئیل اسٹیٹ ایسوسی ایشن کے صدر شے مختیارکا کہنا ہے کہ باڑ منصوبہ رہائشی و تعمیراتی منصوبوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔ گوادر میں لوگوں نے رئیل اسٹیٹ میں کروڑوں اربوں روپے کی سرمایہ کار ی کر رکھی ہے۔ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے رجسٹرڈ100 سے زائد ہاﺅسنگ سکیمیں باڑ سے باہر رہ جائیں گی جبکہ صرف دس سے بیس ہاﺅسنگ سکیمیں باڑ کے اندر آئیں گی۔ باڑ کے باہر رہ جانے والی سکیموں کی مارکیٹ ویلیو گر جائے گی۔ 

بی این پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ثناءاللہ بلوچ نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی (فوٹو: اے ایف پی)

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بھی گوادر میں باڑ لگانے کی مخالفت کرتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تبصرہ کیا کہ ’یہ کس قسم کی ترقی ہے جو مقامی لوگوں کو اپنی سرزمین پر جانے سے روکتی ہے۔ یہ ترقی نہیں بلکہ استحصال ہے اور ہم اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔

بی این پی کے رکن بلوچستان اسمبلی ثناءاللہ بلوچ نے بھی ٹوئٹر پر لکھا کہ اس مسئلے پر اسمبلی سمیت ہر فورم پر بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔

شیئر: