انڈیا میں کسانوں کی ہڑتال جاری ہے اور حکومت سے بات چیت میں تعطل کے بعد ملک کے مختلف حصوں سے مزید کسان دہلی کے لیے روانہ ہوئے ہیں جبکہ دہلی آنے والی مختلف شاہراہوں پر مزید پولیس نفری تعینات کی گئی ہے۔
کسان دو ہفتوں سے دارالحکومت دہلی کی سرحد پر بڑی تعداد میں یکجا ہیں تو وہاں ایک میلے کا سماں ہے ، رضا کار ان کے لیے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے لے کر کھانے پینے کی چیزیں اور چپل جوتے تو مہیا کرہی رہے تھے اب انھیں فُٹ مساج اور پیزا بھی فراہم کیے جانے کی بات بھی کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
دہلی میں رشتے سے انکار پر لڑکے نے گرل فرینڈ کے والد کو مار ڈالاNode ID: 523406
چنانچہ کسانوں کی تحریک کی مخالفت کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’یہ تحریک ہے یا فائیو سٹار سپا اور ان کے پیسے کون دے رہا ہے۔‘
فیکٹ چیک کرنے والی نیوز سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے چند ٹویٹس کے سکرین شاٹ شیئر کیے ہیں جن میں ان مظاہرہ کرنے والے کسانوں پر سوال اٹھایا گیا ہے اور انھیں ’خالصتانی‘ کہا گیا ہے۔

محمد زبیر لکھتے ہیں ’آئی ٹی سیل والے حسد سے جلے جا رہے ہیں کہ مظاہرہ کرنے والے کسانوں کو پیزا اور فُٹ مساج، فرائے فروٹ وغیرہ دیے گئے۔ ٹوئٹر پر اپنی مایوسی کیوں ظاہر کر رہے ہیں اس کے بجائے آئی ٹی سیل کے سربراہ سے شکایت کریں اور ان سے کہیں کہ کسانوں کے خلاف ٹویٹ کرنے کے صلے میں وہ آپ سب کو مفت پیزا فراہم کرے۔‘
IT cell is jealous because protesting farmers were provided with Pizzas and foot massagers, fry fruits etc..
Why show frustration on twitter, Instead complain to IT cell head and ask him to provide free pizzas for your tweets against Farmers. pic.twitter.com/wRyFCzghXm
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) December 12, 2020
محمد زبیرنے مزید کہا کہ اوپ انڈیا نے اپنا ٹویٹ تو ہٹا لیا ہے لیکن ان کا مضمون اب بھی دستیاب ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ کسانوں کو ’مساج پارلر‘ کے بعد ’جم لنگر‘ فراہم کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا والے حیران ہیں کہ آخر اس ’پروٹیسٹ‘ میں شامل کیسے ہوا جاتا ہے۔‘
ایک نے تو ایک قدم بڑھ کر لکھا ہے کہ ’سنگھو بارڈر پر اب خالصتانی مظاہرین کے لیے صرف جیگولوز کی فراہمی ہی باقی رہ گئی ہے۔‘
خیال رہے کہ آئی ٹی سیل والے عرف عام میں ان افراد کو کہا جاتا ہے جو بی جے پی کے لیے سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں اور حکومت کے ایجنڈے کی حمایت کرتے ہیں۔
اب ملکی مسئلے سے گھریلو مسئلے کی جانب آتے ہیں۔ میاں بیوی کا لڑائی جھگڑا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں ایسی ہی ایک خبر آئی تھی کہ بیوی سے جھگڑے کے بعد ایک اطالوی شخص اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے 450 کلو میٹر تک چلتے رہے اور لاک ڈاؤن توڑنے کے لیے ان پر سینکڑوں یورو کا جرمانہ بھی کیا گیا۔
لیکن انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے یہ خبر ہے کہ ایک پولیس اہلکار نے ملازمت سے چھٹی کی درخواست دی جس میں انہوں نے اپنی بیگم کے غصے کو سبب بتایا ہے۔
بھوپال کے ایک پولیس اہلکار نے اپنے سالے کی شادی میں جانے کے لیے پانچ دن کی چھٹی کی درخواست سات دسمبر کو دی۔ شادی کی تقریبات 11 دسمبر سے شروع ہو رہی تھیں۔
ڈی آئی جی کے نام اپنی درخواست میں انھوں نے گزارش کی کہ ان کی چھٹی کو منظور کیا جائے تاکہ وہ اپنی اہلیہ کے عتاب سے محفوط رہ سکیں۔
انھوں نے ہندی میں لکھا: ’عرضی گزار کی اہلیہ کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اگر بھائی کی شادی میں نہیں آئے تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔‘
جب ان کی یہ چھٹی کی درخواست سوشل میڈیا پر آئی تو بہت سے لوگوں نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا لیکن بھوپال رینج کے اضافی ڈی جی پولیس نے کہا کہ کانسٹیبل کو چھٹی کے بجائے تادیبی کارروائی کے تحت سزا سنائی گئی ہے اور انھیں پولیس لائن منتقل کر دیا گیا ہے۔
اب یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے کہ کسی کو سزا ملے اور کسی کے ہاتھ خزانہ لگے۔
کبھی کبھی گھر کی صفائی کے دوران لوگ نادر اور قیمتی اشیا بھی پھینک دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک حسن اتفاق ممبئی کے رہائشی وجے بسرور کے ساتھ ہوا جب وہ اپنی ماں کا گھر صاف کر رہے تھے تو انھیں اپنے نانا کی آٹوگراف بک ہاتھ لگ گئی۔
انھوں نے دیکھا کہ اس میں ان کے نانا نے انڈیا کے ’بابائے قوم‘ کہے جانے والے رہنما موہن داس کرمچند گاندھی کے ساتھ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو، فزکس میں نوبل انعام حاصل کرنے والے انڈین سانئسدان سی وی رمن اور انڈیا کا آئین بنانے والے رہنما بھیم راؤ بابا صاحب امبیڈ کر کے آٹوگراف تھے۔
Been cleaning my Mom's place over the last few days. On Saturday we discovered something which I wasn't aware of was at my house for the last 30 years.
Discovered my grandfather's autograph book which has signatures of Mahatma Gandhi, Nehru, BR Ambedkar and CV Raman.
Surreal pic.twitter.com/eep8dKsKAz