انڈیا: علی گڑھ یونیورسٹی کی ’سیاست سے پاک‘ تقریب، مودی مہمان خصوصی
انڈیا: علی گڑھ یونیورسٹی کی ’سیاست سے پاک‘ تقریب، مودی مہمان خصوصی
جمعرات 17 دسمبر 2020 15:59
شبانو علی -اردو نیوز، ممبئی
قیام پاکستان میں علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا کی مایہ ناز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب میں وزیراعظم نریندر مودی مہمان خصوصی ہوں گے۔ کووڈ 19 وبا کے پیش نظر سماجی دوری کے اصول کو اپناتے ہوئے یہ یادگار تقریب 22 دسمبر کو آن لائن منعقد کی جا رہی ہے۔
علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے یونیورسٹی کے سٹاف اور طلبہ کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’کسی بھی ادارے کے لیے صد سالہ جشن ایک سنگ میل ہوتا ہے، اسے کسی بھی طرح کی سیاست سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
خط کے متن کے مطابق ’جس طرح یوم جمہوریہ (26 جنوری)، یوم آزادی (15 اگست)، گاندھی جینتی (2 اکتوبر) اور عید میلاد النبی کے جشن کو سیاست سے بالاتر رکھا جاتا ہے اسی طرح اس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریبات کے جشن کو سیاست سے پاک رکھا جائے۔‘
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صد سالہ تقریب سے مرکزی وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشانک بھی خطاب کریں گے۔
اے ایم یو کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے دعوت قبول کرنے پر وزیراعظم اور وزیر تعلیم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صد سالہ تقریبات میں ان کی موجودگی سے ملک اور دنیا کی اے ایم یو برادری کو ایک اہم پیغام ملے گا۔‘
پروفیسر طارق منصور نے بتایا کہ سرسید کے قائم کردہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو یکم دسمبر 1920 کو گزٹ نوٹی فیکیشن کے ذریعے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ترقی دی گئی تھی اور اس یونیورسٹی کا افتتاح 17 دسمبر کو اس وقت کے وائس چانسلر محمد علی محمد خان راجا محمود آباد نے کیا تھا۔
یونیورسٹی نے اعلیٰ تعلیم کے سرکردہ ادارے کی حیثیت سے ملک کو ’سرحدی گاندھی‘ یعنی خان عبدالغفار اور ملک کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کی شکل میں دو 'بھارت رتن' دیے ہیں۔
سرسید احمد خان نے مسلمانوں کی پستی کی وجہ جدید تعلیم کی کمی کو قرار دیا تھا اور پھر انھوں نے سنہ 1875 میں دہلی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر علی گڑھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی۔
جب انھوں نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹوں کی طرز پر اسے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں تبدیل کر دیا۔ ان کے اس ادارے نے بر صغیر کے مسلمانوں میں جدید تعلیم کی جوت جگائی اور اس کی وجہ سے ہر شعبے میں بڑے بڑے نام سامنے آئے۔
علی گڑھ کی ویب سائٹ پر جہاں اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر ذاکر حسین اور خان عبدالغفار خان کا ذکر ملتا ہے وہیں انڈیا کے سابق نائب صدر محمد حامد انصاری، مالدیپ کے صدر محمد امین دیدی، اداکار نصیرالدین شاہ، نغمہ نگار جاوید اختر، بنگلہ دیش کے وزیراعظم منصور علی، جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ شیخ محمد عبداللہ، معروف تاريخ داں پروفیسر عرفان حبیب، شاعر اور نغہ نگار شہریار، ہاکی کے کھلاڑی ظفر اقبال و دیگر کی بھی تصاویر نظر آتی ہیں۔
اگرچہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے واضح کیا ہے کہ اس تقریب کے جشن کو سیاست سے الگ رکھا جائے لیکن علی گڑھ کا سیاست سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ قیام پاکستان میں علی گڑھ کے طلبہ اور اساتذہ کی اکثریت نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور آج بھی انڈیا میں یہ یونیورسٹی کسی نہ کسی سیاسی تنازعے میں گھری نظر آتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس وقت تقریباً 25 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کا شمار ملک کی صف اول اور بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔