انڈیا کا معروف تعلیمی ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) ایک بار پھر خبروں میں ہے اور اس بار معاملہ انتہائی سنگین نظر آ رہا ہے کیونکہ کیمپس میں 50 سے زیادہ نقاب پوش افراد داخل ہوئے اور انہوں نے طلبہ اور ٹیچرز کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ہاسٹل میں توڑ پھوڑ کی۔
جے این یو کے طلبہ پر ہونے والے حملے پر انڈیا کے مختلف گوشوں سے مذمت کی جا رہی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر اسے بی جے پی کی ایما پر کیا جانے والا حملہ بتایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب لوگ امت شاہ کے استعفے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بھیم آرمی چیف، شہریت قانون کے مخالفNode ID: 449421
-
فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ پر انڈیا میں تنازعNode ID: 450921
-
شہریت قانون پر بالی وڈ کی مددNode ID: 451536
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق آل انڈیا میڈیکل سائنسز ہسپتال کے حکام نے بتایا ہے کہ پیر کو جے این یو کے 34 طلبہ کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی۔ انہیں گذشتہ شام ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
زخمی ہونے والوں میں جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئیشی گھوش بھی ہیں جنہیں سر پر چوٹ آئی ہے اور ان کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے۔
جے این یو کے سابق طالب علم اور سٹوڈنٹ یونین کے صدر سیتارام یچوری نے آئیشی گھوش کی ویڈیو کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 'اس ویڈیو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آر ایس ایس/ بی جے پی انڈیا کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔'
Masked attackers entered JNU while law enforcers stood by. This video is what RSS/BJP want to convert India to. They will not be allowed to succeed. pic.twitter.com/ymFuygoMxl
— Sitaram Yechury (@SitaramYechury) January 5, 2020
عینی شاہدین کا الزام ہے کہ حملہ آوروں نے کپڑوں سے اپنے منہ چھپا رکھے تھے اور انہوں نے ہاسٹل میں چن چن کر مسلمان طلبہ کے کمروں کو نشانہ بنایا۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق دلی میں جنوب مغربی علاقے کے نائب پولیس کمیشنر دیویندر آریہ نے کہا ہے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے جبکہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پوسٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی جانچ کی جائے گی۔
Devendra Arya,DCP (South-West): We have taken cognizance of yesterday's #JNUViolence and have registered an FIR. Social media and CCTV footages will be part of investigation. pic.twitter.com/Nyfl4YCBTb
— ANI (@ANI) January 6, 2020
دوسری جانب جے این یو انتظامیہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یکم جنوری سے یونیورسٹی کا سرمائی سیشن شروع ہوا اور اس کے ساتھ طلبہ کے ریجسٹریشن کا معاملہ شروع ہوا لیکن طلبہ کا ایک گروپ ریجسٹریشن کے خلاف تھا اور انہوں نے انٹرنیٹ کو نقصان بھی پہنچایا۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانچ جنوری کو ریجسٹریشن کرانے والے اور انہیں روکنے والوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی تھی لیکن شام ساڑھے چار بجے کے بعد نقاب پوش افراد پیریار ہوسٹل میں داخل ہوئے اور طلبہ کے کمروں میں گھس کر ان پر ڈنڈے اور راڈ سے حملہ کر دیا۔
The JNU administration feels great pain and anguish for the students who have sustained injuries in the violence that took place in JNU campus. The JNU administration strongly condemns any form of violence in the campus. pic.twitter.com/Quk3Zc7wN0
— Mamidala Jagadesh Kumar (@mamidala90) January 5, 2020
بی جے پی کے رہنما گری راج سنگھ نے کمیونسٹ پارٹی اور اس مکتبۂ فکر کے حاملین پر جے این یو میں تشدد کا الزام لگایا ہے جبکہ کانگریس پارٹی کے ترجمان سندیپ سنگھ سورجے والا نے انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ ٹویٹ کرتے ہوئے بی جے پی کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے لکھا: 1۔ جے این یو پر حملہ پہلے سے طے تھا۔ 2۔ حملے کو جے این یو انتظامیہ کی حمایت حاصل تھی۔ 3۔ غنڈے بی جے پی کے تھے۔ 4۔ طلبہ اور ٹیچر کو پیٹا جا رہا تھا اور دہلی پولیس خاموش تماشائی تھی۔ کیا یہ سب بغیر وزیر داخلہ کی سازباز کے ہو سکتا ہے؟'
#JNUattack proves-:
1. Attack on JNU campus was premeditated.
2. Attack had support of JNU administration.
3. Goons belonged to BJP.
4. Delhi police was a mute spectator as studentrs/teachers were beaten.Can this happen without tacit support of HM?https://t.co/qRfyNwOWTP
— Randeep Singh Surjewala (@rssurjewala) January 6, 2020
دوسری جانب کل شام جوں ہی جے این یو پر حملے کی خبر پھیلی رات میں ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ممبئی میں گیٹ وے آف انڈیا کے تاریخی مقام پر بہت سے کالج کے طلبہ یکجا ہو گئے اور انہوں نے حملے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اب یہ مظاہرہ سوموار کو پورے دن جاری رہے گا جس میں طلبہ بڑی تعداد میں شرکت کرنے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
آئی آئی ایم احمد آباد کے سامنے شام ساڑھے پانچ بجے مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ علی گڑھ میں ماس کمیونیکیشن سے باب سرسید تک مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔
دہلی میں جے این یو کے گیٹ پر مظاہرہ جاری ہے جبکہ جامعہ اور شاہین باغ میں روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کی درجنوں یونیورسٹی میں جے این یو کی حمایت میں جلوس نکالے جا رہے ہیں۔
-
انڈین خبروں کے لیے ’’اردو نیوز انڈیا‘‘ گروپ جوائن کریں