Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دو ریاستی فارمولے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے‘

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین اور جمعیت علما اسلام کے سینئر رہنما مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینا چاہیے۔
اردو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مغربی حصے میں اسرائیلی اور مشرقی حصے میں فلسطینی ریاست ہونی چاہیے۔‘
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ فلسطین خلافت عثمانیہ کی ملکیت تھی اس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے، عربوں کا مقدمہ تھا انہوں نے بھی مان لیا ہے لیکن ہزاروں کلومیٹر دور اس مسئلے پر خوامخواہ کی جذباتی باتیں کی جارہی ہیں جو غیر معقول ہیں۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تنازع عرب کا ہے یا عجم کا؟ ’اگر دو فریق آپس میں بیٹھ رہے ہیں تو پھر کسی اور کو شرائط رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘
مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ ’بے مقصد کی خون ریزی اور جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جانا چاہیے کیونکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اوربین الاقوامی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے2019 میں دھرنا دیا اور جماعت کی مجلس شوریٰ سے اس کی منظوری اب لی۔ ’پی ڈی ایم کی تحریک کا کوئی نتیجہ اور نہ کوئی سودے کا ماحول نظر آرہا ہے۔‘
جمعیت علمااسلام سے تعلق رکھنے والے سابق پارلیمنٹرین کا کہنا تھا کہ جو جماعتیں عمران خان کو سلیکٹڈ کہتی ہیں وہ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں وہ سلیکٹڈ ہیں یا منتخب ہیں؟
’پی ڈی ایم کی جو مخاصمت ہے یہ مخاصمت برائے عداوت نہیں بلکہ مخاصمت برائے مفاہمت ہے کہ ہمیں بھی کوئی حصہ ملے۔‘
مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا تھا کہ میں نے آزادی مارچ کے دھرنے کے بارے میں بھی اسی وقت کہا تھا کہ جس طرح گئے ہیں اسی طرح آئیں گے۔ اس پی ڈی ایم کے بارے میں بھی میں نے کہا کہ مجھے کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا اور سودے کا بھی بظاہر کوئی ماحول نظر نہیں آتا۔

مولانا شیرانی کے مطابق ’پی ڈی ایم کی جو مخاصمت ہے یہ مخاصمت برائے عداوت نہیں بلکہ مخاصمت برائے مفاہمت ہے کہ ہمیں بھی کوئی حصہ ملے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ استعفے نقد چیز ہیں اور نقد چیز پھینک کر ادھار کی امید پر بیٹھنا کوئی دانائی کی بات نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا نہیں خیال کہ اپوزیشن کے ہاتھ میں جو ہیں وہ پھینک دیں گے اور آگے کا معلوم بھی نہیں کہ کچھ ہاتھ آئے یا نہ آئے اسی لئے پیپلز پارٹی کافی حد تک اس پر آمادہ نظر نہیں آتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان جیسے ممالک میں کبھی بھی انتخابات آزاد نہ ہوئے ہیں اور نہ آئندہ آزاد انتخابات ہونے کا کوئی امکان ہے اس لیے میں تجویز دیتا ہوں کہ کوئی الگ ادارہ کھولا جائے اوراس پر بورڈ لگادیا جائے کہ ’ادارہ برائے وزارت‘۔‘
’انتخابات کی مصیبتوں، بھاگ دوڑ، ناراضگیوں اور مار کٹائی سے بہتر یہ ہے کہ جس کو بھی وزارت کا شوق ہو وہ اس ادارے کو درخواست دیں اور جو الیکشن کے لیے اس نے جمع پونجی رکھی ہو کسی لفافے میں ڈال کر کہیں کہ یہ میری استطاعت ہے اور یہ میری خواہش ہے۔‘
جے یو آئی کے جماعتی انتخابات میں تنازعات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اگر جماعت شخصی یا وراثتی ہو تو پھر تو اصلاح کے امکانات نہیں ہوں گے۔
’اگر جماعت کو فرد اپنے نام الاٹ کریں کوئی شین بنے، کوئی ف بنے، کوئی نون بنے تو پھر جمعیت علماءاسلام تو درمیان میں سے نکل گئی اس لئے میں ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ تمام گروپ چھوڑ دو اصل جماعت میں آجاﺅ۔‘

مولانا شیرانی کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے2019 میں دھرنا دیا اور جماعت کی مجلس شوریٰ سے اس کی منظوری اب لی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

بلوچستان میں متوازی حکومت سے متعلق اپوزیشن کے الزام پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ یہ جو ارکان اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں یہ کیا اپنے بل بوتے پر آئے ہیں یا ان (اسٹیبلشمنٹ) کی معاونت سے پاس ہوئے ہیں۔ جب انہوں نے ہی کامیاب کروایا ہے تو پھر جوابدہ بھی انہی (اسٹیبلشمنٹ) کو ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان سے اختلاف کن باتوں پر ہیں؟ اس سوال سے متعلق جمعیت علما اسلام کے سینئر رہنما نے واضح نہیں بلکہ اشاروں اور کنایوں میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری قسمت ایسی ہے کہ علما اور قومی زعما جب ان پر صاف ستھرا جھوٹ ثابت ہوجائے نہ وہ شرماتے ہیں نہ ان کے چہرے پر نہ آنکھوں میں کوئی تغیر آتا ہے۔ بڑے ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو حکمت عملی ہے۔ اورجب وعدہ خلافی ان پر ثابت ہوجائے تو کھل کھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو سیاست ہے، رات گئی بات گئی۔ جب دھوکا ان پر ثابت ہوجائے تو پھر بڑے آرام سے تکیہ لگا کر کہتے ہیں کہ یہ تو مصلحت ِوقت ہے۔ جب خود غرضی ثابت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو دانائی ہے۔‘
کیا آپ کے ساتھ مولانا فضل الرحمان نے دھوکا دیا ہے اس سوال پر رہنما جے یو آئی کا کہنا تھا کہ نہیں میرے ساتھ تو دھوکا نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا نیو ورلڈ آرڈر کا تجربہ ہے کیونکہ نیو ورلڈ آرڈر میں دو چیزیں ہوں گی ’ایک آرڈر اور ایک مذہب ۔‘

شیئر: