پی ڈی ایم تاریخ کی ردی میں چلی گئی ہے: وزیرِ اطلاعات شبلی فراز
پی ڈی ایم تاریخ کی ردی میں چلی گئی ہے: وزیرِ اطلاعات شبلی فراز
جمعرات 31 دسمبر 2020 18:11
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں چلی گئی ہے اور اس کے رہنما مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی سیاسی بصیرت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
اردو نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ استعفوں کے معاملے پر مریم نواز کے گھر میں ان کی کوئی بات نہیں سنتا تو باہر کون سنے گا۔ ان کے اپنے رشتہ دار نے اسمبلی میں جا کر استعفوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
’ان کے استعفوں کی دھمکی بھی ناکام ہو گئی ہے۔ کل انہی کے دو ارکان، اسمبلی سیکرٹریٹ پہنچے اور انہوں نے استعفوں سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ ان میں سے ایک پارلیمنٹیرین تو مریم نواز کے رشتہ دار یعنی دیور تھے، تو اگر گھر میں ان کی کوئی بات نہیں مانتا تو باہر کیا کریں گے۔ یہ ایک جھوٹی دھمکی تھی جو بری طرح پٹ گئی ہے۔۔۔ پی ڈی ایم تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں چلی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم آئی سی یو میں پہنچ چکی ہے، کیونکہ ان کی اندرونی طور پر مخالفت ہے اور مخلتف پارٹیوں نے الگ پوزیشن لے لی ہے۔
’ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ اپنے آپ کو بند گلی میں لے آئیں گے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ڈس کریڈٹ کر دیا ہے۔ خاص طور پر مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان بے نقاب ہو گئے ہیں۔ ایک تو ان کی سیاسی بصیرت پر شکوک و شبہات اور سوالیہ نشان پیدا ہوگئے ہیں۔‘
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ مریم ایک ذاتی بیانیہ لے کر چل رہی ہیں، ان کی آپ تقاریر سنیں جن میں وہ صرف اپنے والد کا ذکر کرتی ہیں۔ نہ عوام کا ذکر کرتی ہیں نہ ملک کو آگے لے کر جانے کی بات کرتی ہیں اور نہ ہی ان سوالات کا جواب دیتی ہیں جو کہ ان سے پوچھے گئے ہیں کہ آپ نے یہ اثاثے کیسے بنائے؟ ان کی منی ٹریل دیں۔
نواز شریف کی واپسی میں حکومت کی مجبوریاں
حکومت کی طرف سے نواز شریف کے پاسپورٹ منسوخ کرنے کے اعلان اور ان کو واپس لانے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ (نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے) ہماری کچھ حدود ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم چاہتے نہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور عدالت میں آکر اپنے کیسز کا سامنا کریں، لیکن عدالت سے بھاگنا اور عوام سے بھاگنا، سوالوں کے جواب نہ دینا یہ کوئی طریقہ نہیں اور کسی بھی ملک میں اس کی اجازت نہیں ہوگی۔
'نیب حکومت کا آلہ نہیں ہے'
خواجہ آصف کی گرفتاری اور اپوزیشن کی جانب سے نیب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے الزام پر ان کا کہنا تھا کہ یہ جو کیسز ہیں یہ گذشتہ حکومتوں کے قائم کردہ ہیں۔ ہماری حکومت کے دور میں انتہائی کم کیسز ہوئے ہیں جن میں ایک خواجہ آصف کا ہے اور ایک شہباز شریف کا۔ 'اب دیکھیں، چونکہ یہ دس دس سال، بیس بیس سال تیس تیس سال حکومتوں میں رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ان کا جو حساب ہے وہ تو کلیئر ہونا چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ ہم تو نیب کو بطور آلہ استعمال نہیں کر رہے کیوں کہ یہ ایک خود مختار ادارہ ہے، لیکن ہم نے یہ ضرور کیا ہے کہ ہم نے جو پہلے مداخلت ہوتی تھی وہ روک دی ہے۔ نیب چیئرمین ہمارا لگایا ہوا نہیں ہے یہ پچھلی حکومتوں نے لگایا ہے۔ نیب قانون ہمارا بنایا ہوا نہیں ہے یہ پیچھے سے آیا ہے۔ اگر اپوزیشن چاہتی جو کہ ابھی واویلا کر رہی ہے کہ نیب کے قانون کو تبدیل ہونا چاہیے تو اس کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اس میں کئی ایسی چیزیں ہیں جو بدلنی چاہییں۔
انہوں نے ماضی میں جو نیب ترمیم کے لیے 34 شقیں پیش کی تھیں وہ بالکل نیب کے پر کاٹنے کے متراف تھیں۔
اس سوال پر کہ اپوزیشن کی گرفتاریوں کے باوجود حکومتی ارکان کے خلاف نیب کیسز سست روی کا شکار ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو کسی وزیر یا حکومتی عہدیدار پر شبہ ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث ہے تو وہ نیب میں شکایت کرے کیونکہ پی ٹی آئی کا تو ایمان ہے کہ ہم نے پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا ہے۔
'منشور پر نصف عمل نہیں ہو سکا'
اس سوال پر کہ حکومت کا نصف دور مکمل ہونے پر کیا وہ سمجھتے ہیں کہ منشور پر نصف عمل ہو چکا ہے ان کا کہنا تھا کہ ’میں نصف کا نہیں کہوں گا مگر جتنی بھی ہمارے منشور میں پالیسیاں تھیں ہم اسی پر گامزن ہیں۔ ہماری حکومت جب اقتدار میں آئی تو معیشت کے میدان میں بڑی مشکلات تھیں تو ہمارا پہلا ٹارگٹ تھا جس نے ہمارا وقت لیا وہ معیشت کو ٹھیک کرنا تھا جس حالت میں ہمیں معیشت ملی تھی اس سے ہم نے معیشت کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کر دیا ہے۔ یہ ایک عمل ہوتا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پی ٹی آئی کے منشور کا تعلق ہے تو کئی ایسی چیزیں ہیں جو کہ ہم نے کر لی ہیں اور باقی بھی جو وقت رہ گیا ہے اس میں منشور پر عمل کرلیں گے کیونکہ ہم نے عوام کے ساتھ وعدے کیے ہیں اور عوام کے پاس ہی واپس جانا ہے۔ ’یہ ہوتی ہے جمہوریت کی خوب صورتی جس میں آپ کو اپنے وعدوں پر عمل کے حوالے سے احتساب کے لیے پیش ہونا پڑتا ہے۔‘