پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایک حالیہ خطاب میں اپنی حکومت کے بقیہ ڈھائی سالوں کے لیے تین بڑے چیلنجز گنوائے ہیں۔ ان میں پاور سیکٹر کو درست کرنا اور اس کے گردشی قرضوں پر قابو پانا، سبسڈیز کو کنٹرول کرنا اور ملک میں دولت کی زیادہ پیداوار کو ممکن بنانا ہے۔
اپنے اسی خطاب میں وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ وہ حکومت سنبھالتے وقت اس کی ذمہ داریوں کے لیے نہ تو تیا ر تھے اور نہ ہی ان سے آگاہ تھے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال گزرنے کے بعد اب اس حقیقت کو کارکردگی نہ دکھانے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
وزیراعظم نے یہ خطاب وفاقی وزارتوں کے حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کی تقریب کے موقع پر کیا۔ یہ معاہدہ جو وزیراعظم ہاؤس کی آشیر باد پر کیا گیا ہے۔ تمام وزارتوں کو کارکردگی دکھانے اور متواتر نگرانی کا پابند بنائے گا۔
مزید پڑھیں
-
کسی نے ان کو این آر او دیا تو ملک سے غداری کرے گا: عمران خانNode ID: 527591
-
پاکستان انڈیا کی ’باسمتی‘ جنگ، مقدمہ ہارنے پر کتنا نقصان ہوگا؟Node ID: 528746
اس خطاب کے کچھ دنوں بعد وزیراعظم کے دفتر سے اعلان کیا گیا کہ انہوں نے ماضی میں نظر انداز ہونے والے شعبوں فوڈ سکیورٹی، زراعت، بجلی، افرادی قوت، بیرونی سرمایہ کاری ، نجکاری، انفارمیشن ٹیکنالوجی، اور بر آمدات پر اکنامک آوٹ ریچ کو ترجیحی شعبے قرار دے کر ان کا اپنی نگرانی میں ہفتہ وار اجلاس بلانے کا حکم دیا ہے۔
ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ جہاں اپوزیشن عمران خان کو گھر بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے وہاں وہ دستیاب مدت میں اپنے اہداف حاصل کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن کیا یہ اہداف اب بھی واضح ہیں اور کیا ان کو حاصل کرنا اتنا ہی آسان ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی کے سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا اہداف مقرر کرنا اچھی بات ہے مگر انہیں کامیابی کے لیے اپنی ٹیم بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اچھی چیز ہے کہ انہوں نے ترجیحی شعبوں کی شناخت کر لی ہے، گردشی قرضے بڑا چیلنج ہے، تباہ حال قومی ادارے سٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے قومی خزانے پر انحصار کرتے ہیں،یہ صورتحال ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ان کی منتخب کردہ ٹیم ڈھائی سالوں میں بہتری نہیں لا سکی تو نئی ٹیم لانی چاہیے۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نےاردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیراعظم نے معیشت میں اتنی دلچسپی نہیں لی جتنی عمران خان نے لی ہے لیکن ان کی ٹیم نے انہیں مس گائیڈ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اگر وزیراعظم اپنی بقیہ مدت میں کچھ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی گورننس کی سمت زراعت، توانائی اور سی پیک کی طرف موڑیں اور نئے چہروں کو سامنے لا کر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر توجہ دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ملک میں گندم اور کپاس کی پیداوار تیزی سے کم ہوئی ہے لیکن حکومت نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں دی جب کہ سی پیک پروگرام کی رفتار بھی سست ہوئی ہے اور وزیراعظم کو اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سی پیک صرف ٹویٹ پر رہ گیا ہے۔ ایسے پروگرام ٹوئٹر پر نہیں چلتے۔‘
معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ گورننس بہتر بنانے کے لیے بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوتے ہیں جو تاحال نظر نہیں آتے۔
